• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قبر میں حضورﷺ کا سفارش کے لیے آنا

استفتاء

آپ کو ایک فتویٰ ارسال کیا جا رہا ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں تشریف لا کر شفاعت کرتے ہیں اور اس پر دلائل بھی دیے گئے ہیں،سوال یہ ہے کہ کیا یہ فتویٰ درست ہے ؟فتویٰ مندرجہ ذیل ہے:

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عقیدہ شفاعت بالکل برحق ہے ۔پوچھنا یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت صرف قیامت کے ساتھ خاص ہے ؟یا آپ قبر میں بھی شفاعت فرماتے ہیں ؟قبر والوں کی شفاعت کے متعلق کوئی روایت موجود ہو تو برائے کرم تحریر فرما دیں۔

جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شفاعت کرنا صرف قیامت کے ساتھ خاص نہیں ہے ،بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر والوں کی بھی شفاعت فرماتے ہیں ،ان کی قبر کو کشادہ کرانا،ان کے لیے دعائے مغفرت کرنا،شیطان اور عذاب قبر سے حفاظت اور منکر نکیر کے سوالات میں کامیابی وغیرہ کی دعا کرنا ،یہ سب امور احادیث میں مذکور ہیں ۔

ابن ماجہ میں ہے:

عن سعيد بن المسيب، قال: حضرت ابن عمر في جنازة، ‌فلما ‌وضعها ‌في ‌اللحد، قال: «بسم الله، وفي سبيل الله، وعلى ملة رسول الله» فلما أخذ في تسوية اللبن على اللحد قال: «اللهم أجرها من الشيطان، ومن عذاب القبر، اللهم جاف الأرض عن جنبيها، وصعد روحها، ولقها منك رضوانا» قلت: يا ابن عمر أشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، أم قلته برأيك؟ قال: «إني إذا لقادر على القول، بل شيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم.

ترجمہ:حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ ایک جنازہ میں حاضر ہوا حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اسے لحد میں رکھا تو فرمایا:بسم الله وفى سبيل الله،جب لحد برابر کرنے لگے تو کہا:’’ الٰہی!اسے شیطان سے بچا اور عذاب قبر سے امان دے‘‘،پھر فرمایا’’میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ‘‘۔

مسند احمد میں ہے:

عن جابر بن عبد الله، قال: ‌لما ‌دفن ‌سعد، ونحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، سبح رسول الله صلى الله عليه وسلم فسبح الناس معه طويلا، ثم كبر فكبر الناس، ثم قالوا: يا رسول الله لم سبحت؟ قال:لقد تضايق على هذا الرجل الصالح قبره حتى فرجه الله عنه

ترجمہ:حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دفن ہو چکے اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے،تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیر تک سبحان الله فرماتے رہے اور ہم بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کہتے رہے،پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم الله أكبر الله أكبر فرماتے رہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کہتے رہے ،پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی یا رسول اللہ آپ تسبیح کیوں فرماتے رہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اس نیک مرد پر اس کی قبر تنگ ہوئی تھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی قبر کشادہ فرما دی‘‘۔

ابو داؤد میں ہے:

عن عثمان بن عفان، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم، إذا فرغ ‌من ‌دفن ‌الميت وقف عليه، فقال: «استغفروا لأخيكم، وسلوا له بالتثبيت، فإنه الآن يسأل

ترجمہ:حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جب دفن میت سے فارغ ہوتے تو قبر پر وقوف فرماتے اور ارشاد فرماتے:’’اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے لیے جواب نکیرین میں ثابت قدم رہنے کی دعا مانگو کہ اب اس سے سوال ہو گا‘‘۔

مذکورہ بالا احادیث میں واضح طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبر والوں کے لیے مختلف امور میں شفاعت کرنا بیان ہو رہا ہے اور چونکہ انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کی ظاہری زندگی اور وفات میں کچھ فرق نہیں ہوتا ،وہ اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں ،رزق دیے جاتے ہیں،لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظاہری وفات کے بعد بھی قبر والوں کی شفاعت فرماتے ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ومرتبہ تو نہایت بلند وبالا ہے،اس کے کیا کہنے،علماء نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے مجتہدین،صلحاءوصوفیاء کے متعلق بھی یہ لکھا ہے کہ وہ بعد وفات اپنے پیروکاروں،مریدین و متوسلین سے کبھی غافل نہیں ہوتے،نزع روح،منکر نکیر کے سوالات،حشر نشر،حساب،میزان وصراط سب جگہ مدد فرماتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تصرف وشفاعت کا کیا عالم ہوگا ۔

انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں،چنانچہ حضرت سیدنا ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا "قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أكثروا الصلاة على يوم الجمعة فإنه مشهود تشهده الملائكة،وإن أحدا لن يصل على إلا عرضت على صلاته حتى يفرغ منها قال:قلت:وبعد الموت؟قال:إن الله حرم على الأرض أن تاكل أجساد الأنبياء فنبى الله حى يرزق”

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’مجھ پر جمعہ کے دن کثرت سے درود پاک پڑھا کرو کیونکہ یوم مشہود ہے،اس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور جو بھی مجھ پر درود پڑھتا ہے اس کا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس سے فارغ ہو جائے‘‘۔حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:میں نے عرض کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری وفات کے بعد ؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کے جسموں کو کھائے،پس اللہ کا نبی زندہ ہوتا ہے،رزق دیا جاتا ہے ‘‘۔(مشکوٰۃ المصابیح)

اس حدیث پاک کے تحت ملا علی قاری رحمہ اللّہ فرماتے ہیں: فلا فرق لهم في الحالين ’’انبیاء کرام علیہم السلام کی ظاہری زندگی اور وفات کے بعد کی زندگی میں کوئی فرق نہیں ہے‘‘(مرقاۃ المفاتیح)

الحاوی للفتاوی میں ظاہری وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاموں کے متعلق یہ بیان کیا: (‌النظر ‌في ‌أعمال ‌أمته والاستغفار لهم من السيئات، والدعاء بكشف البلاء عنهم، والتردد في أقطار الأرض لحلول البركة فيها، وحضور جنازة من مات من صالح أمته، فإن هذه الأمور من جملة أشغاله في البرزخ) ’’ اپنی امت کے اعمال میں نگاہ رکھنا،ان کے لیے گناہوں سے استغفار کرنا،ان سے دفع بلا کی دعا کرنا،زمین کے مختلف اطراف میں برکت دینے کے لیے آنا جانا اور اپنی امت میں کوئی صالح آدمی فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں آنا،یہ تمام کام برزخ میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا مشغلہ ہیں‘‘(الحاوی للفتاویٰ، کتاب البعث)

ائمہ مجتہدین قبروں میں اپنے اپنے مقلدوں کی شفاعت کرتے ہیں۔چنانچہ سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:الحمد للّہ برزخ میں بھی ان کا فیوض جاری اور غلاموں کے ساتھ وہی شان امدادویاری ہے۔امام اجل عبد الوہاب شعرانی قدس سرہ الربانی میزان الشریعۃ الکبری میں ارشاد فرماتے ہیں:’’جميع الائمة المجتهدين يشفعون فى أتباعهم ويلاحظونهم فى شدائدهم فى الدنيا والبرزخ ويوم القيامة حتى يجاوز الصراط‘‘.’’تمام ائمہ مجتہدین اپنے پیرووں کی شفاعت کرتے ہیں اور دنیاوبرزخ وقیامت ہر جگہ کی سختیوں میں ان پر نگاہ رکھتے ہیں یہاں تک کہ صراط سے پار ہو جائیں‘‘۔

امام اجل نے اسی کتاب اجمل میں فرمایا: قد ذكرنا فى كتاب الاجوبة عن ا ئمة الفقهاء والصوفية كلهم يشفعون فى مقلديهم ويلاحظون احدهم عند طلوع روحه وعند سوال منكر ونكير له وعند النشر والحشر والحساب والميزان والصراط،ولا يغفلون عنهم فى موقف من المواقف ولما مات شيخنا شيخ الاسلام ناصر الدين اللقانى رآه بعض الصالحين فى المنام فقال له ما فعل الله بك؟ فقال لما اجلسنى الملكان فى القبرليسئلانى اتاهم الامام مالك رحمه الله تعالى فقال هذا يحتاج إلى سوال فى إيمانه بالله ورسوله تنحيا عنه فتنحيا عنى واذا كان مشائخ الصوفية يلاحظون أتباعهم ومريديهم فى جميع الأهوال والشدائد فى الدنيا والآخرة فكيف بأئمة المذهب الذين هم أوتاد الارض وأركان الدين وأمناء الشارع صلى الله تعالى عليه وسلم على أمته رضى الله تعالى عليهم أجمعين. ہم نے کتاب الاجوبہ عن الفقہاء والصوفیہ میں ذکر کیا ہے کہ

’’تمام ائمہ فقہاء و صوفیاءاپنے اپنے مقلدوں کی شفاعت کرتے ہیں اور جب ان کے مقلد کی روح نکلتی ہے ،جب منکر نکیر اس سے سوال کو آتے ہیں،جب اس کا حشر ہوتا ہے،جب نامہ اعمال کھلتےہیں،جب حساب لیا جاتا ہے،جب عمل تلتے ہیں،جب صراط پر چلتا ہے،غرض ہر حال میں اس کی نگہبانی فرماتے ہیں اور کسی جگہ اس سے غافل نہیں ہوتے۔ہمارے استاد شیخ الاسلام امام ناصر الدین لقانی مالکیؒ  کا جب انتقال ہوا بعض صالحوں نے انہیں خواب میں دیکھا،پوچھا اللہ تعالی نے آپ کے ساتھ کیا کیا؟کہا جب منکر نکیر نے مجھے سوال کے لیے بٹھایا امام مالک ؒتشریف لائےاور ان سے فرمایا:ایسا شخص بھی اس کی حاجت رکھتا ہے کہ اس سے خدا اور رسول پر ایمان لانے کے بارے میں سوال کیا جائے،الگ ہو اس کے پاس سے،یہ فرماتے ہیں نکیرین مجھ سے الگ ہو گئےاور جب مشائخ کرام صوفیہ قدست اسرارہم ہول وسختی کے وقت دنیا و آخرت میں اپنے پیرووں اور مریدوں کا لحاظ رکھتے ہیں تو ان پیشوایان مذہب کا کہنا ہی کیا جو زمین کی میخیں ہیں اور دین کے ستون ،اور شارع علیہ السلام کی امت پر امین،رضی اللہ تعالی علیہم اجمعین‘‘۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جواب سے پہلے چند باتیں ذہن میں رکھیں (۱) کسی بھی دینی بات کو ثابت کرنے کے دلائل چا ر ہیں۔ (1)قرآن، (2) حدیث، (3) اجماع، (4) قیاس۔ (۲) دین کی  جس بات کا تعلق عقیدے اور نظریے سے ہو اس کی دلیل قرآن، حدیث یا اجماع سے ہونا ضروری ہے قیاس کافی نہیں۔ (۳) کشف اور خواب شرعی دلیل نہیں۔ اس تفصیل کے بعد اگر مذکورہ فتوے اور اس کے دلائل میں غور کریں تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ مذکورہ فتوے میں قرآن وحدیث یا اجماع کی کوئی ایسی دلیل مذکور نہیں جس میں یہ بات واضح ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر ميں تشريف لاكر شفاعت كرتے  ہیں لہٰذا ہماری تحقیق میں مذکورہ فتویٰ درست نہیں باقی جن احادیث سے مذکورہ فتوے  میں استدلال کیا گیا ہے ان میں آپﷺ کا قبر میں تشریف لا کر شفاعت کرنے کا تذکرہ نہیں بلکہ اپنی زندگی میں  دفن کے وقت میت کے لیے دعا کرنے کا تذکرہ ہے چنانچہ مذکورہ احادیث کے ترجمہ میں معمولی غور کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ حضور اکرمﷺ اور دیگر انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات اپنی قبروں میں حیات ہیں تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ ﷺ یا دیگر حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات قبروں میں تشریف لاکر سفارش فرماتے ہیں۔ اسی طرح الحاوی کی عبارت میں قبروں میں تشریف لاکر سفارش کرنے کا تذکرہ نہیں بلکہ جنازے میں شرکت کا تذکرہ ہے اور وہ بھی ہر کسی کے جنازے میں شرکت کا تذکرہ نہیں بلکہ اپنی امت کے صالح (نیک) لوگوں کے جنازے میں شرکت کا تذکرہ ہے نیز نیک لوگوں کے جنازے میں شرکت بھی عالم برزخ میں ہوتی ہے نہ کہ عالم دنیامیں کیونکہ الحاوی میں آپﷺ کے مذکورہ اعمال کو برزخ کے اعمال میں شمار کیا ہے چنانچہ الحاوی کی اس عبارت سے متصل پہلے یہ الفاظ ہیں ’’مما هو فى صدده فى البرزخ من النظر فى اعمال امته‘‘ اور اسی عبارت کے متصل بعد یہ الفاظ ہیں’’فأن هذه الامورمن جملة اشغاله فى البرزخ.‘ اسی طرح میزان الکبریٰ کے حوالے سے جو بات مذکور ہے وہ کشف اور خواب پر مبنی ہے جو کہ دلیل شرعی نہیں نیز جو خواب مذکور ہے اس سے صرف اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ بعض اوقات ایسا ہوجاتا ہے نہ یہ کہ ہمیشہ اور ہر کسی کے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved