- فتوی نمبر: 17-228
- تاریخ: 17 مئی 2024
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ(1) جب میت کو قبر میں اتار دیتے ہیں اور تدفین کے وقت لوگ اصرار کرتے ہیں کہ درمیان والی سلیپ پر کلمہ طیبہ لکھ دیں کیا یہ طریقہ درست ہے ؟رہنمائی فرمائیں!
(2) اور جو لوگ تدفین کے وقت کہتے ہیں کہ آؤ اور آکر مٹھی بھر کر مٹی ڈال دیں یہ مٹی ڈالنا کیسا ہے؟وضاحت فرمائیں!
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1) [1]سلیپ پر کلمہ طیبہ لکھنا درست نہیں ایک تو اس وجہ سے کہ یہ لکھنا بے فائدہ ہے یعنی اس لکھنے سے میت کو فائدہ ہونا کسی دلیل شرعی سے ثابت نہیں اور دوسرے اس وجہ سے کہ اس میں کلمہ طیبہ کی بے احترامی کا اندیشہ ہے
کیونکہ سلیپ کے گرنے کا خطرہ رہتاہے چنانچہ اسی وجہ سے فقہاء کرام نے مسجد کی دیواروں پر آیات قرآنیہ اور مقدس اسماء کے لکھنے کو مکروہ کہا ہے۔
(2) میت کو قبر میں اتارنےکے بعد تین بار (دونوں ہاتھوں سے)مٹی ڈالنا مستحب ہے ۔
(1)ولا ينبغي الكتابه على جدرانه(درختار)
قال في البحر وكذلك يكره كتابةالرقاع والصاقها بالابواب لما فيه من الاهانة وفيه من النهاية ليس بمستحسن كتابة القرآن على المحارب و الجدران لما يخاف من سقوط الكتابة وان توطأ (طحطاوي على الدرالمختار278/1)
(قوله ولاينبغي الكتابة على جدرانه) أي خوفا من أن تسقط وتوطأ،بحر عن النهاية (شامی2/528)
فتاوی شامی (186/3)میں ہے:
عن الفتح أنه تكره كتابة القرآن وأسماء الله تعالى على الدراهم والمحاريب والجدران وما يفرش، وما ذاك إلا لاحترامه، وخشية وطئه ونحوه مما فيه إهانة ۔
(2) (ويهال التراب عليه، وتكره الزيادة عليه) من التراب لأنه بمنزلة البناء ويستحب حثيه من قبل رأسه ثلاثا،درالمختار(3/167)
(قوله: من قبل رأسه ثلاثا) لما في ابن ماجه عن أبي هريرة «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى على جنازة ثم أتى القبر فحثاعليه من قبل رأسه ثلاثا» شرح المنية. قال في الجوهرة: ويقول في الحثية الأولى {منها خلقناكم} [طه: ٥٥] وفي الثانية {وفيها نعيدكم} [طه: ٥٥] وفي الثالثة {ومنها نخرجكم تارة أخرى} [طه: ٥٥] شامی (3/167
[1] امدادالفتاوی (2/719)
سوال (828) مساجد میں سنگ مرمر پر آیات قرآنی کندہ کرا کر لگانےکا کیا حکم ہے اگر جائز ہے تو اچھا ہے یا نہیں؟
الجواب۔فقہاءنے مکروہ لکھا ہے بوجہ احتمال بےادبی کے۔لیکن اگر کندہ ہو کر لگ گئے ہوں تو اب اس کا اکھاڑنا بے ادبی ہے۔ لہذا اس کی حالت پر چھوڑ دیا جاوے۔
کفایت المفتی (183/3)
مسجد کی دیواروں پر آیات قرآنی یا ترجمہ لکھنا
(۲) مسجد کی قبلہ والی دیوار پر نقش و نگار کرنا
(سوال ) (۱) مسجد کے دروازہ یا کھڑکی یا بیرونی یا اندرونی حصے کے کسی مناسب جگہ منظر عام پر بہ نسبت نفع خلق کلمہ طیبہ یا آیات قرآنی یا ترجمہ کسی آیت یا حدیث کی بر زبان بنگلہ لکھنا جائز ہے یا نہیں (۲) مسجد کی قبلہ کی دیوار میں یا محراب میں نقش و نگار کرنا کیسا ہے خصوصاً چندہ کے پیسے سے اور ایسا نقش جو بوقت صلوۃ نمازی کے دل کو مائل کرنے والا ہو۔
(جواب ۲۸۸) دیواروں‘ دروازوں‘ محرابوں یا عمارت کے کسی حصہ پر آیات و احادیث یا ان کا ترجمہ لکھنا خلاف ادب اور مکروہ ہے (۱) (۲) دیوار قبلہ پر نقش و نگار بنانا بھی مکروہ ہے چندہ دینے والے اگر اس کام سے راضی ہوں تو پھر وجہ کراہت یہی ہوگی کہ نمازیوں کا دل اس پر مشغول رہے گا (۲)
محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ ‘ دہلی
۱)ولیس بمستحسن کتابۃ القرآن علی المحاریب والجدران مما یخا ف من سقوط الکتابۃ وأن توطأ و فی جمع النسفی‘ مصلی أو بساط فیہ أسماء اللہ تعالیٰ یکرہ بسطہ الخ (عالمگیریۃ‘ الفصل الثانی فیما یکرہ فی الصلاۃ وما لا یکرہ ۱/۱۰۹ ط ماجدیہ )
(۲) وکرہ مشائخنا النقش علی المحراب و خائط القبلۃ‘ لأنہ یشغل قلب المصلی الخ (رد المحتار‘ مطلب فی احکام المسجد ‘ ۱/۶۵۸ ط سعید )
فتاوی دارالعلوم دیوبند (14/201)
سوال:(الف)مسجد کی دیوار پر کلمہ شریف آیت قرآنیہ وغیرہ لکھ کر لٹکانا کیسا ہے؟(ب)کلمہ وغیرہ قبلہ رخ مسجد میں دیوار پر ہوں تو اس کے سامنے نماز پڑھنا کیسا ہے؟
الجواب:قال في فتح القدير: تكره كتابة القرأن وأسماء الله تعالي على الدراهم والمحارب والجدران الخ(1) اس سے معلوم ہوا کہ یہ صورت مکروہ ہے۔(2) نماز ہو جاتی ہے مگر ایسا کرنا مکروہ ہے جیسا کہ اوپر لکھا گیا۔
فتاوی رحیمیہ (177/9)
مسجد کی دیوار پر آیات قرآنی لکھناممنوع ہے۔
سوال: مسجد کے اندرونی اور بیرونی حصے میں قرآن شریف کی آیتیں لکھنا کیسا ہے؟ اگر جائز ہے تو کون سی آیت لکھنا افضل ہے؟
مسجد کے اندرونی اور بیرونی حصے میں قرآن شریف کی آیت اور قابل تعظیم اشیاء لکھنا ممنوع ہے۔بے ادبی کا احتمال کی وجہ سے فقہاء اجازت نہیں دیتے۔
ولا ينبغي الكتابه على جدرانه(درختار)
قال في البحر وكذلك يكره كتابةالراقاع والصاقها بالابواب لما فيه من الاهانة وفيه من النهاية ليس بمستحسن كتابة القرآن على المحارب و الجدران لما يخاف من سقوط الكتابة وان توطأ (طحطاوي على الدرالمختار)
(قوله ولاينبغي الكتابة على جدرانه) أي خوفا من أن تسقط وتوطأ،بحر عن النهاية (شامي)
© Copyright 2024, All Rights Reserved