• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

قبرستان کے لیے وقف زمین میں مسجد بنانا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک جگہ  (قطعۂ اراضی) کو قبرستان کے لیے وقف کر دیا گیا، اور اس میں  بہت سی قبریں بھی بنا دیں گئیں جن کی ایک بڑی تعداد اب بوسیدہ ہو چکی ہے، لیکن قبرستان کے لیے وقف کی گئی اس زمین کا کچھ حصہ ایسا ہے کہ جس میں سرے سے ابھی تک کوئی قبر بنائی ہی نہیں گئی، قبرستان کی انتظامیہ اس باقی ماندہ زمین میں پنجگانہ نماز کے لیے مسجد بنانا چاہتی ہے،  جبکہ  یہاں پر مسجد کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے کیونکہ قریب میں مسجدیں موجود ہیں اور اگر مسجد بنائی جائے تو قبرستان میں تنگی ہو گی۔ اور بنانے والے کچھ وڈیرے قسم کے لوگ ہیں جو زبردستی وہاں پر مسجد بنانا چاہتے ہیں حالانکہ سب کا اتفاق نہیں ہے۔ کیا از روئے شریعت ایسا کرنے کی گنجائش ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

وقف قبرستان میں جب تک مردوں کو دفنانے کی ضرورت باقی رہے اس وقت تک وقف قبرستان کی جگہ کو کسی دوسرے استعمال میں لانا اور اس میں مسجد بنانا شرعاً جائز نہیں۔ لہذا مذکورہ صورت میں قبرستان کی خالی جگہ میں مسجد بنانا شرعاً جائز نہیں۔

فتاویٰ شامی (6/ 704) میں ہے:

و في الإسعاف: و لا يجوز له أن يفعل إلا ما شرط (عند الوقف از ناقل) وقت العقد. و في فتاوى شيخ قاسم: و ما كان من شرط معتبر في الوقف فليس للواقف تغييره ولا تخصيصه بعد تقرره و لا سيما بعد الحكم.

فقد ثبت أن الرجوع عن الشروط لا يصح إلا التولية ما لم يشرط ذلك لنفسه فله تغيير الشرط مرة واحدة إلا أن ينص على أنه يفعل ذلك كلما بدا له و إلا إذا كانت المصلحة اقتضته. فقط  و الله تعالى أعلم

 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved