• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

قادیانیوں کو تبلیغ کرنے والوں کےمتغلق چندسوالات

استفتاء

ہماری جماعت مجلس احرار اسلام پاکستان کے زیر اہتمام شعبہ تبلیغ کے داعیان غیر  مسلموں بالخصوص قادیانیوں اور بہائیوں کو دعوت اسلام دینے کے حوالے سے کام کررہے ہیں۔ ہمارے مبلغین جب قادیانیوں سے ملاقات کرتے ہیں تو مختلف مسائل پیش آتے ہیں جماعت کے شعبہ دعوت اسلام کی طرف سے کچھ سوالات خدمت ہیں۔ امید ہے توجہ اور تحقیق سے ان کے جوابات عنایت فرماکر رہنمائی فرمائیں گے۔

ہمارا کا م قادیانیوں سے ملاقاتیں کرکے انہیں اسلام کی دعوت دینا ہے اور قادیانیوں کی طرف سے  پھیلائے گئے شکوک وشبہات  کو احسن انداز سے ردکرکے اس فتنے کی بھینٹ چڑھے مسلمانوں یا قادیانیوں کو مطمئن کرکے اسلام کی طرف راغب کرنا ہے  جس سے بیسیوں قادیانی وبہائی اسلام قبول کرچکے ہیں اور بیسیوں مسلمان قادیانیوں کے نرغے میں پھنسنے سے بچ چکے ہیں۔

ہمارے داعیان کے ساتھ پیش آمدہ معاملات میں کچھ سوالات ہیں جنکا شرعی حل قرآن وسنت کی روشنی میں مطلوب ہے، رہنمائی فرمائیں۔

1.قادیانیوں سے ملاقات کرنے کے لیے بحیثیت مبلغ ان کے گھروں میں جانا پڑتا ہے بعض اوقات ان کی دل جوئی کے لیے پانی، چائے وغیرہ بھی پینی پڑتی ہے، اس سلسلہ میں ہم کیا کریں؟

2.قادیانیوں سے گفتگو کے دوران مرزا غلام احمد قادیانی کے نام کے ساتھ ان کے  سامنے نرم لہجہ اختیار کرتے ہوئے ’’صاحب‘‘ کا  اضافہ کردیتے ہیں بحیثیت داعی ہم یہ لفظ استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں؟

3.بعض اوقات ملاقات کے لیے ان کو اپنے پاس بلانا پڑتا ہے، اس دوران ان کی ضیافت وغیرہ کرسکتے ہیں یا نہیں؟ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا سکتے ہیں یا نہیں؟ چائے پی سکتے ہیں یا نہیں؟

4.جو لوگ دعوت سے قائل ہوکر اسلام قبول کرلیتے ہیں تو ان کے معاملات میں ہمیں اور ان کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بعض اوقات انہیں گھر سے نکال دیا جاتا ہے، اب اس مسئلے میں مرد ہو یا عورت، شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ان نو مسلمین کے ساتھ ہمیں کیا سلوک اختیار کرنا چاہیے؟ اور کتنے وقت کا  انتظار کرکے ان کی شادی بیاہ کے مسائل ومعاملات حل کرنے چاہئیں؟

5.اگر کوئی لڑکا یا لڑکی مسلمان ہوجاتا ہے تو اس کے قبولِ اسلام کے حوالے سے اکثر لوگ شک وشبہے میں مبتلا رہتے ہیں کہ نہ معلوم اس نے سچے دل سے اسلام قبول کیا ہے یا نہیں؟ اسلام کا اصول کیا ہے کہ جو صدقِ دل اور اقرارِ زبان سے مسلمان ہوجائے تو کتنا عرصہ اسے پرکھنا چاہیے کہ یہ کامل مسلمان ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔بہتر تو یہ ہے کہ ان کے گھر نہ جایا جائے بلکہ کسی طریقے سے انہیں اپنے ماحول میں بلاکرتبلیغ کی جائے تاہم اگر مجبوراً جانا بھی پڑے تو مندرجہ ذیل امورکاخیال رکھاجائے:

(۱)مبلغ مضبوط قسم کا ہو،ایسا نہ ہو جو ان کی کسی بات سے متاثرہوجائے(۲)ان کےساتھ کوئی ایسا معاملہ نہ کیا جائے جس سے ان کی تعظیم ہو(۳)کھانے پینے سے حتی الامکان پرہیز کیاجائے تاکہ ’’منہ کھائے اورآنکھ شرمائے ‘‘والی بات نہ بن جائے۔

2۔’’صاحب‘‘کالفظ اردو میں عام طور پرکسی نام کےساتھ تعظیم اوراحترام کےلیے استعمال ہوتا ہے اورکافر کااگرچہ اکرام توجائز ہے تاہم احترام اورتعظیم جائز نہیں،لہذا مرزاقادیانی کےنام کےساتھ اس لفظ کااستعمال جائز معلوم نہیں ہوتا ،تاہم جہاں مرزاکےنام کےساتھ اس لفظ کو استعمال کرنے سے کسی مرزائی کےاسلام قبول کرنے کی توقع ہوتو وہاں استعمال کی گنجائش ہے۔

3۔مجبوری کےدرجے کاکرسکتے ہیں جس کی صورت یہ ہےکہ ضیافت (جس میں کچھ تکلف سے کام لیاجائے)سے احتیاط کی جائے اورکھانے یا چائے کاوقت ہو تو معمول کاکھانا یا چائے پلادی جائے اوراس میں بھی اگر ساتھ بیٹھنےکی مجبوری نہ ہو تو ساتھ نہ بیٹھا جائے۔

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح(1/182)میں ہے:

(وعن عمر) رضي الله عنه قال:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (‌لا ‌تجالسوا أهل القدر» ) : بضم أوله أي: لا تواددوهم، ولا تحابوهم، فإن المجالسة ونحوها من المماشاة من علامات المحبة وأمارات المودة، فالمعنى لا تجالسوهم مجالسة تأنيس وتعظيم لهم لأنهم إما أن يدعوك إلى بدعتهم بما زينه لهم شيطانهم من الحجج الموهمة، والأدلةالمزخرفة التي تجلب من لم يتمكن في العلوم والمعارف إليهم ببادي الرأي، وإما أن يعود عليكم من نقصهم وسوء عملهم ما يؤثر في قلوبكم وأعمالكم؛ إذ مجالسة الأغيار تجر إلى غاية البوار ونهاية الخسار. قال تعالى: {ياأيها الذين آمنوا اتقوا الله وكونوا مع الصادقين} [التوبة: 119] ولا ينافي إطلاق الحديث تقييد الآية في المنافقين حيث قال الله تعالى: {فلا تقعدوا معهم حتى يخوضوا في حديث غيره إنكم إذا مثلهم} [النساء: 140] وكذا قوله عز وجل {وإذا رأيت الذين يخوضون في آياتنا فأعرض عنهم حتى يخوضوا في حديث غيره} [الأنعام: 68] فلم ينه عن مجالستهم مطلقا؛ لأن الحديث يحمل على من لم يأمن على نفسه منهم؛ فيمنع عن مجالستهم مطلقا، والآية على من أمن فلا حرج عليه في مجالسته لهم بغير التأنيس، والتعظيم ما لم يكونوا في كفر، وبدعة، وكذا إذا خاضوا وقصد الرد عليهم وتسفيه أدلتهم، ومع هذا؛ البعد عنهم أولى، والاجتناب عن مباحثتهم أحرى (ولا تفاتحوهم) : من الفتاحة بضم الفاء وكسرها؛ أي: الحكومة، ومنه قوله تعالى: {ربنا افتح بيننا وبين قومنا بالحق} [الأعراف: 89] أي: لا تحاكموا إليهم فإنهم أهل عناد ومكابرة، وقيل: لا تبدءوهم بالسلام، أو بالكلام. وقال المظهر: لا تناظروهم فإنهم يوقعونكم في الشك، ويشوشون عليكم اعتقادهم أي: وإن لم تجالسوهم، فهو عطف مغاير، وقيل: عطف خاص؛ لأن المجالسة تشتمل على المؤاكلة والمؤانسة، والمحادثة وغيرها، وفتح الكلام في القدر أخص من ذلك. (رواه أبو داود) : وكذا أحمد، والحاكم

عالمگیری،باب الرابع عشر فی اہل الذمۃوالاحکام التی تعود الیہم (5/ 348)میں ہے:

«وفي مجموع النوازل إذا دخل يهودي الحمام هل يباح للخادم المسلم أن يخدمه قال إن خدمه طمعا في فلوسه فلا بأس به وإن خدمه تعظيما له ينظر إن فعل ذلك ليميل قلبه إلى الإسلام فلا بأس به وإن فعل تعظيما لليهودي دون أن ينوي شيئا مما ذكرنا كره له ذلك.

وعلى هذا إذا دخل ذمي على مسلم فقام له إن قام طمعا في إسلامه فلا بأس وإن قام تعظيما له من غير أن ينوي شيئا مما ذكرنا أو قام طمعا لغناه كره له ذلك كذا في الذخيرة»

کفایت المفتی (9/112)میں ہے:

سوال : قادیانیوں کے ساتھ کھانا پینا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب:کھانا پینا تو جب کہ کوئی ناجائز اشیا اور ناجائز طریقے سے نہ ہو غیر مسلم کے ساتھ بھی جائز ہے ہاں میل جول رکھنا اور ایسی معاشرت جس سے  عقائد و اعمال مذہبیہ پر اثرپڑے ناجائز ہے جمہور علمائے ہندوستان کے فتویٰ کے بموجب قادیانی کافر ہیں انکے ساتھ کھانا پینا اگر احیاناً اتفاقاً ہو تو مضائقہ نہیں   لیکن ان کے ساتھ میل جول اور اسلامی تعلقات رکھنا ناجائز ہے –

آپ کےمسائل اوران کاحل (2/131)میں ہے:

تبلیغ کی غرض سے غیر مسلم کےساتھ کھاناکھانا

سوال:کیاکوئی مسلمان کسی غیر مسلم شخص کےساتھ کھانا(الگ الگ یا ایک پلیٹ میں)کھاسکتا ہے یا نہیں؟چاہے وہ کتنا ہی اعلی اورکمتر کیوں نہ ہو ۔اگر کوئی مسلمان تبلیغی طور پر ایسا کرنا چاہے تو کیا وہ ایسا کام کرنے کا حق رکھتا ہے؟

الجواب:غیر مسلم کےہاتھ صاف ہوں تو بوقت ضرورت اس کےساتھ کھانے میں کوئی حرج نہیں۔

معارف القران (5/420)میں  ہے:

ادع الي سبيل ربک بالحکمة الخ ،لفظ  حکمت قرآن کریم میں بہت سے معانی کےلیے استعمال ہوا ہے ، روح المعانی نے بحوالہ بحر محیط حکمت کی تفسیر یہ کی ہے  :

انها الکلام الصواب الواقع من النفس اجمل موقع(روح)’’یعنی حکمت اس درست کلام کانام ہے جو انسان کے دل میں اترجائے‘‘اس تفسیر میں تمام اقوال جمع ہوجاتے ہیں اورصاحب روح البیان نے بھی تقریبا یہی مطلب ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ حکمت سے مراد وہ بصیرت  ہےجس کےذریعہ انسان مقتضیات احوال کومعلوم کرکے اس کےمناسب کلام کرے ،وقت اورموقع ایسا تلاش کرے کہ مخاطب پر بار نہ ہو ،نرمی کی جگہ نرمی اورسختی کی جگہ سختی اختیار کرے،اورجہاں یہ سمجھے کہ صراحۃً کہنے میں مخاطب کو شرمندگی ہوگی وہاں اشارات سے کلام کرے یا کوئی ایسا عنوان اختیار کرے کہ مخاطب کو نہ شرمندگی ہواور نہ اس کے دل میں اپنے خیال پر جمنے کاتعصب پیداہو۔

دوسری جگہ (6/110)میں ہے:

’’فقولا له قولالينالعله يتذکر او يخشي

اس میں پیغمبرانہ دعوت کاایک اہم اصول  یہ بیان ہوا ہے کہ  فریق مخالف کتنا ہی سرکش اورغلط سے غلط عقائد وخیالات کاحامل ہو اصلاح وہدایت کافریضہ انجام دینے والوں پر لازم ہے کہ اس کے ساتھ بھی ہمدردانہ خیرخواہانہ انداز سے بات نرم کریں ۔اسی کایہ نتیجہ ہوسکتا ہے کہ مخاطب کچھ غور وفکر پر مجبور ہو جائے اوراس کے دل میں خداکاخوف پیدا ہوجائے۔فرعون جو خدائی کادعویدارجبار اورظالم ہے ،جو اپنی ذات کی حفاظت کےلیے ہزار ہا بنی اسرائیل کے بچوں کے قتل کا مجرم ہے اس کی طرف بھی اللہ تعالی اپنے خاص پیغمبروں کو بھیجتے ہیں تو یہ ہدایت نامہ دے کر بھیجتے ہیں کہ اس سے بات نرم کر یں تاکہ اس کو غورو فکر کاموقع ملے ،اوریہ اس پر ہے کہ اللہ تعالی کے علم میں تھا کہ فرعون اپنی سرکشی سے اورگمراہی سے باز  آنے والانہیں مگر اپنے پیغمبروں  کواس اصول کاپابند کرنا تھا جس کےذریعہ خلق خدا سوچنے سمجھنے پر مجبور ہوکر خدا تعالی کے خوف کی طرف آجائے۔فرعون کوہدایت ہویا نہ ہو مگر اصول وہ ہونا چاہیے جوہدایت واصلاح کاذریعہ بن سکے‘‘۔

4۔مرد کی شادی میں تو شرعا کچھ انتظار کی ضرورت نہیں ،ہاں مصلحتاً انتظار کرنا پڑےتواس کی کوئی لگی بندھی حد نہیں،باقی رہا عورت کامسئلہ تو اس کی تفصیل آپ کے بھیجے ہوئےتفصیلی سوال نمبر3/2939کےتحت مذکور ہے۔

5۔شرعاً تو آدمی زبان سے کلمہ پڑھنےسے ہی مسلمان ہوجاتا ہے باقی کسی نے اس کےساتھ کوئی خاص معاملہ کرنا ہو اوراسے اس کےدل سے مسلمان ہونے پر تسلی نہ ہو تو وہ اپنی تسلی کےلیے انتظار کرسکتا ہے اوراس کی بھی وقت کےلحاظ سے کوئی لگی بندھی حد نہیں۔

تنبیہ:سورہ ممتحنہ میں جواللہ تعالی نے فرمایا کہ ’’ياايهاالذين امنواذاجاءکم المؤمنٰت مهٰجرٰت فامتحنوهن  الله اعلم بايمانهن‘‘جس سےبظاہر معلوم ہوتا ہے کہ جو ایمان کادعوی کرے اس کاامتحان لیاجائے،اس کاجواب یہ ہے کہ عورتوں کےشرط صلح (حدیبیہ)سے مستثنی ہونے کی وجہ ان کامسلمان اورمؤمن ہونا ہے،مکہ سے مدینہ آنے والی عورتوں میں احتمال اس کابھی تھا کہ ان میں سے کوئی اسلام وایمان کی خاطر نہیں ،بلکہ اپنے شوہر سے ناراضگی کےسبب یا مدینہ کے کسی شخص سے محبت کےسبب یا کسی دوسری دنیوی غرض سے ہجرت کرکے آگئی ہو وہ عنداللہ اس شرط سے مستثنی نہیں ہے،بلکہ اس کو واپس کرنا شرط صلح کےتحت ضروری ہے اس لیے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ ہجرت کرکے آنے والی عورتوں کےایمان کا امتحان لو اس کےساتھ ہی یہ جملہ فرمایا کہ ’’اللہ اعلم بایمانہن ‘‘ جس میں اشارہ کردیا کہ حقیقی اوراصل ایمان کاتعلق تو انسان کےدل سے ہے جس پر اللہ کے سوا کسی کو اطلاع نہیں ،البتہ آدمی کے زبانی اقرار اورقرائن سے ایمان کااندازہ لگایا جاسکتا ہے بس مسلمان اسی کے مکلف ہیں ۔حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ان کےامتحان کا طریقہ یہ تھا کہ مہاجر عورت سے حلف لیاجاتا تھا کہ وہ اپنے شوہر سے بغض ونفرت کی وجہ سے نہیں آئی ،اورنہ مدینہ کےکسی آدمی کی محبت کی وجہ سے اورنہ کسی دوسری دنیوی غرض سے بلکہ اس کاآنا خالص اللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺ کی محبت ورضاجوئی کےلیےہے ،جب وہ حلف کرلیتی تو رسول اللہ ﷺ اس کو مدینہ میں رہنے کی اجازت دیتے اوراس کامہر وغیرہ جو اس نے اپنے شوہر سے وصول کیا تھا وہ اس کےشوہر کو واپس دیدیتےتھے۔ (قرطبی) اورحضرت عائشہ ؓ سے ترمذی میں روایت ہے جس کو ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے ،آپ نے فرمایا کہ ان کے امتحان کی صورت وہ بیعت تھی جس کا ذکر اگلی آیات میں تفصیل سے آیا ہے۔ (معارف القرآن از مفتی شفیعؒ )

نوٹ:اگرچہ اکثر وبیشترقادیانی زندیق کےزمرےمیں آتے ہیں اورفقہ کی بعض عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ زندیق کی توبہ قبول نہیں ،اس سے کسی کو یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ جب قادیانیوں کی توبہ قبول نہیں تو انہیں اسلام کی دعوت دینے کی بھی ضرورت نہیں،اس شبہ کاجواب یہ ہے کہ زندیق کی توبہ قبول نہ ہونے کی بات اس زندیق کےبارے میں ہے جو مبلّغ اورداعی ہواوروہ بھی اس صورت میں ہےجب اسلامی حکومت زندیق پرقابوپالے اوراس کےبعد وہ توبہ کرے لیکن اگروہ اس سےپہلے پہلے توبہ کرلیتا ہے تو اس کی توبہ قابل قبول ہے۔

شامی (4/ 241)میں ہے:

«‌ثم ‌بين حكم الزنديق فقال: اعلم أنه لا يخلو، إما أن يكون معروفا داعيا إلى الضلال أو لا. والثاني ما ذكره صاحب الهداية في التجنيس من أنه على ثلاثة أوجه: إما أن يكون زنديقا من الأصل على الشرك، أو يكون مسلما فيتزندق، أو يكون ذميا فيتزندق، فالأول يترك على شركه إن كان من العجم، أي بخلاف مشرك العرب»فإنه لا يترك. والثاني يقتل إن لم يسلم لأنه مرتد. وفي الثالث يترك على حاله لأن الكفر ملة واحدة اهـ والأول أي المعروف الداعي لا يخلو من أن يتوب بالاختيار ويرجع عما فيه قبل أن يؤخذ أولا، والثاني يقتل دون الأول اهـ وتمامه هناك

احکام القرآن للجصاص(2/ 361)میں ہے:

«روى الزهري عن عبيد الله بن عبد الله قال: أخذ بالكوفة رجال يؤمنون بمسيلمة الكذاب، فكتب فيهم إلى عثمان، فكتب عثمان: "اعرض عليهم دين الحق وشهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله صلى الله عليه وسلم فمن قالها وتبرأ من دين مسيلمة فلا تقتلوه، ومن لزم دين مسيلمة فاقتله” فقبلها رجال منهم ولزم دين مسيلمة رجال فقتلوا»

احکام القرآن للجصاص(1/ 28)میں ہے:

ومن الناس من يقول آمنا بالله وباليوم الآخر وما هم بمؤمنين} وقوله: {يخادعون الله والذين آمنوا وما يخدعون} إلى قوله: {وإذا لقوا الذين آمنوا قالوا آمنا وإذا خلوا إلى شياطينهم قالوا إنا معكم إنما نحن مستهزئون} يحتج به في استتابة الزنديق الذي اطلع منه على إسرار الكفر متى أظهر الإيمان; لأن الله تعالى أخبر عنهم بذلك، ولم يأمر بقتلهم، وأمر النبي عليه السلام بقبول ظاهرهم دون ما علمه هو تعالى من حالهم وفساد اعتقادهم وضمائرهم. ومعلوم أن نزول هذه الآيات بعد فرض القتال; لأنها نزلت بالمدينة، وقد كان الله تعالى فرض قتال المشركين بعد الهجرة ولهذه الآية نظائر في سورة براءة وسورة محمد عليه السلام وغيرهما في ذكر المنافقين وقبول ظاهرهم دون حملهم على أحكام سائر المشركين الذين أمرنا بقتالهم وإذا انتهينا إلى مواضعها ذكرنا أحكامها واختلاف الناس في ‌الزنديق واحتجاج من يحتج بها في ذلك، وهو يظهر من قوله عليه السلام: "أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله، فإذا قالوها عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا»بحقها، وحسابهم على الله” وأنكر على أسامة بن زيد حين قتل في بعض السرايا رجلا قال: لا إله إلا الله، حين حمل عليه ليطعنه، فقال:هلا شققت عن قلبه يعني أنه محمول على حكم الظاهر دون عقد الضميرولا سبيل لنا إلى العلم به

احکام القرآن للجصاص(2/ 358)میں ہے:

«مطلب: في الخلاف في قبول توبة ‌الزنديق

قال أبو بكر: هذا يدل على أن المرتد الذي تاب تقبل توبته وأن توبة المرتد مقبولة; إذ لم تفرق بين الزنديق وغيره من الكفار وقبول توبته بعد الكفر مرة بعد أخرى والحكم بإيمانه متى أظهر الإيمان. واختلف الفقهاء في استتابة المرتد والزنديق، فقال أبو حنيفة وأبو يوسف ومحمد وزفر: "في الأصل لا يقتل المرتد حتى يستتاب، ومن قتل مرتدا قبل أن يستتاب فلا ضمان عليه”. وذكر بشر بن الوليد عن أبي يوسف في الزنديق الذي يظهر الإسلام قال أبو حنيفة: "أستتيبه كالمرتد، فإن أسلم خليت سبيله وإن أبى قتلته”»

احکام القرآن للجصاص( 2/ 360)میں ہے:

عن جابر عن الشعبي قال: "يستتاب المرتد ثلاثا” ثم قرأ: {إن الذين آمنوا ثم كفروا} الآية; وروي عن عمر أنه أمر باستتابته ثلاثا. وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "من بدل دينه فاقتلوه” ولم يذكر فيه استتابته; إلا أنه يجوز أن يكون محمولا على أنه قد استحق القتل، وذلك لا يمنع دعاءه إلى الإسلام والتوبة لقوله تعالى: {ادع إلى سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة} [النحل125] الآية، وقال تعالى: {قل هذه سبيلي أدعو إلى الله على بصيرة«أنا ومن اتبعني} [يوسف: 108] ، فأمر بالدعاء إلى دين الله تعالى ولم يفرق بين المرتد وبين غيره، فظاهره يقتضي دعاء المرتد إلى الإسلام كدعاء سائر الكفار، ودعاؤه إلى الإسلام هو الاستتابة; وقال تعالى: {قل للذين كفروا إن ينتهوا يغفر لهم ما قد سلف} [الأنفال: 38] ، وقد تضمن ذلك الدعاء إلى الإيمان; ويحتج بذلك أيضا في استتابة الزنديق لاقتضاء عموم اللفظ له، وكذلك قوله: {إن الذين آمنوا ثم كفروا ثم آمنوا ثم كفروا} لم يفرق فيه بين الزنديق وغيره، فظاهره يقتضي قبول إسلامه»

تفسیر کبیر(2/ 307)میں ہے:

«واعلم أن العلماء استدلوا بهذه الآية على أن من أظهر الإيمان وجب إجراء حكم المؤمنين عليه، وتجويز خلافه لا يطعن فيه، وتوبة ‌الزنديق مقبولة والله أعلم»

تفسیر كبير(11/ 190)میں ہے:

«المسألة الرابعة: اختلفوا في أن توبة ‌الزنديق هل تقبل أم لا؟ فالفقهاء قبلوها واحتجوا عليه بوجوه:

الأول: هذه الآية فإنه تعالى لم يفرق في هذه الآية بين ‌الزنديق وبين غيره بل أوجب/ ذلك في الكل.

الحجة الثانية: قوله تعالى: قل للذين كفروا إن ينتهوا يغفر لهم ما قد سلف [الأنفال: 38] وهو عام في جميع أصناف الكفرة.

الحجة الثالثة: أن ‌الزنديق لا شك أنه مأمور بالتوبة، والتوبة مقبولة على الإطلاق لقوله تعالى: وهو الذي يقبل التوبة عن عباده [الشورى: 25] وهذا عام في جميع الذنوب وفي جميع أصناف الخلق»

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved