• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

قسطوں کے کاروبار کے متعلق حدیث

استفتاء

کیا نبی پاک ﷺنے کوئی چیز قسطوں پرلی تھی جس کی نقد قیمت کم ہواور قسطوں پر زیادہ ہو؟ ان معاملات میں اگر حدیث شریف ملتی ہے تو برائے کرم ارشاد فرما دیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اس معاملے کا جائز ہونا درج ذیل احایث سے معلوم ہوتا ہے۔

مصنّف ابن ا  بی شیبہ (رقم الحدیث:20459)میں ہے:

حدثنا أبو بكر قال: نا وكيع، عن سفيان، عن ليث، عن طاوس، وعن عبد الرحمن بن عمرو الأوزاعي، عن عطاءقال: لا بأس أن يقول: هذا ‌الثوب ‌بالنقد ‌بكذا، وبالنسيئة بكذا، ويذهب به على أحدهما.

ترجمہ:عطاء بن ابی رباحؒ (جو مشہور تابعی ہیں) فرماتے ہیں کہ اگرکوئی کہے کہ یہ کپڑا نقد میں اتنے کا اور ادھار میں اتنے کا ہے اور خریدار اسے کسی ایک قیمت پر لے جائے،تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

مصنّف  عبد الرزّاق(رقم الحدیث:15571)میں ہے:

أخبرنا عبد الرزاق، قال: أخبرنا معمر عن أيوب، عن ابن سيرين أنه يكره أن يقول: ‌أبيعك ‌بعشرة ‌دنانير نقدا، أو بخمسة عشر إلى أجل، قال معمر: وكان الزهري وقتادة لا يريان بذلك بأسا إذا فارقه على أحدهما.

ترجمہ:ابن سيرين رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ وہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کوئی یوں کہےکہ: "میں تجھے (فلاں چیز)نقد دس دینار میں یا ادھار پندرہ میں فروخت کرتا ہوں "(بشرطیکہ کسی ایک کے طےکرنے پر ان کی جدائی نہ ہوئی ہو،اس شرط  کی تائید حضرت معمر رحمہ اللہ کے اس قول سے بھی ہوتی ہےجو انھوں نے امام زہری اور قتادہ رحمہمااللہ  کے حوالے سے نقل کیا ہےکہ)معمر رحمہ اللہ نے فرمایاکہ:ا مام ابن شہاب زہری  اور امام قتادہ رحمہما اللہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے  جبکہ نقد وادھار میں سے کسی ایک کوطے کرنے  پر ان کی جدائی  ہو ۔

صحيح البخاری (رقم الحدیث:2257)میں ہے:

عن ‌عمرو بن الشريد قال: وقفت على سعد بن أبي وقاص، فجاء المسور بن مخرمة، فوضع يده على إحدى منكبي، إذ جاء أبو رافع مولى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا سعد ابتع مني بيتي في دارك، فقال سعد:والله ما أبتاعهما، فقال المسور: والله لتبتاعنهما، فقال سعد: ‌والله ‌لا ‌أزيدك ‌على ‌أربعة آلاف منجمة، أو مقطعة، قال أبو رافع: لقد أعطيت بهما خمسمائة دينار، ولولا أني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: الجار أحق بسقبه ما أعطيتكهما بأربعة آلاف وأنا أعطى بهما خمسمائة دينار. فأعطاها إياه.

ترجمہ:عمرو بن شرید فرماتے  ہیں کہ:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس کھڑا تھا ،اتنے میں مسور بن مخرمہ آئے اورانھوں نے اپنا ہاتھ میرے مونڈھے پر رکھا،اتنے میں ابورافع رضی اللہ عنہ بھی آگئےجو آنحضرت ﷺکے آزاد کردہ غلام تھے۔انہوں نے کہا:اے سعد تم میرے دونوں کمرے جو تمہارے گھر میں ہیں خرید لو ۔ سعد نےکہا : اللہ کی قسم میں نہیں خریدتا ۔مسور نےکہا(جو کہ ساتھ ہی کھڑے تھے) اللہ کی قسم تم کو خریدنا ہو گا ۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا (پھر ٹھیک ہےمگر) میں چار ہزار درہم سے زیادہ نہیں دوں گا وہ بھی کئی قسطوں میں یا  توڑ توڑ کر(راوی کو  الفاظ میں شک ہوا ہے)   ابورافع نےکہا کہ مجھے تو ان گھروں کے پانچ سو دینار  ملتے ہیں(جن کے پانچ ہزار درھم بنتے ہیں )  اگر میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ  نہ سنا ہوتا کہ” ہمسایہ  اپنی نزدیکی  کی وجہ سے زیادہ حق دار ہے "تو میں تم کو یہ گھر چار ہزار درہم کے بدلے کبھی نہ دیتا ۔ خصوصاجب کہ مجھے ان کے پانچ سو دینار مل رہے ہیں،آخرکار ابو رافع رضی اللہ عنہ نے دو کمرے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو دے دیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved