- فتوی نمبر: 5-101
- تاریخ: 09 جولائی 2012
استفتاء
شفیق آٹوز نے کچھ موٹر سائیکل قسطوں پر فروخت کیے اور ایک عالم دین کے مشورے سے قسطوں پر فروخت کرنے کی شرائط یہ رکھیں تھیں۔
قسطوں پر فروخت کرنے کی شرائط یہ تھیں:
1۔ ایڈوانس مثلاً 15000 ہزار نقد دے گا، 2۔ قسط ماہوار ہوگی۔ 3۔ کوئی قسط رہ گئی تو جرمانہ نہیں ہوگا۔ 4۔ اگر قسط کی ادائیگی بروقت نہیں کی تو کچھ عرصہ انتظار کیا جائے گا۔ باوجود یا ددہانی کے اور مزید ایک دو ماہ انتظار کے اگر قسط کی ادائیگی نہ ہوگی تو موٹر سائیکل ضبط ہوجائے گی اور اس کو بازار میں بیچ دیا جائے گا۔ بقایا جات کی کٹوتی کے بعد باقی پیسے خریدار کو دے دیے جائیں گے۔ اس مقصد کے لیے موٹر سائیکل کی ڈپلیکیٹ چابی اور کاغذات بھی شفیق آٹوز کے پاس محفوظ ہوں گے۔
معاہدے کے دوران گاہک سے شفیق آٹوز یہ بات بھی کرتا ہے کہ اگر ایڈوانس زیادہ دیں گے تو ماہانہ قسط کی مقدار کم ہوگی اور اگر ایڈوانس کم ہوگا تو قسط کی مقدار زیادہ ہوگی۔
دوسری بات اگر ماہانہ قسطیں تین کی بجائے چھ کرنا چاہیں تو موٹر سائیکل کی کل قیمت بھی زیادہ ہوگی۔ مثلاً 3 قسطوں میں قیمت 43 ہزار ہوگی اور 6 قسطوں میں 46 ہزار ہوگی، لیکن خریدار ادائیگی تین قسطوں کے اعتبار سے چاہتا ہے یا چھ کے، یہ معاہدے سے پہلے طے ہوتا ہے اس کے بعد پھر طے شدہ قیمت کی مقدار میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاتی۔ کیا اس طرح معاہدہ کرنا جائز ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جائز ہے۔
1.البيع مع تأجيل الثمن و تقسيطه صحيح. ( المجلة، المادة: 245 )
2.يلزم أن تكون المدة معلومة في البيع بالتأجيل و التقسيط. ( المجلة، المادة: 246 )
3.و قد فسر بعض أهل العلم قالوا بيعتين في بيعة أن يقول أبيعك هذا الثوب بنقد بعشرة و بنسيئة بعشرين ولا يفارقه أحد البيعين فإن فارقه على إحداهما فلا بأس إذا كانت الععقدة على أحد منها.( ترمذي، كتاب البيوع )
4.و لو قال كلما دخل نجم و لم يؤد. فلمال حال صح و يصير المال حالاً. ( )
و في الملتقط: عليه ألف ثمن جعله الطالب نجوماً إن أخل بنجم حل الباقي فالأمر كما شرط. البحر الرائق
5.و كذا إذا قال بعتك هذا العبد بألف درهم إلى سنة أو بألف و خمس مائة إلى سنتين لأن الثمن مجهول، و قيل هو الشرطان في البيع، و قد روي أن رسول الله صلى الله عليه و سلم نهى عن شرطين في البيع. فإذا علم و رضي به جاز البيع، لأن المانع من الجواز هو الجهالة عند العقد، و قد زالت في المجلس.(بدائع الصنائع )
6.قال أصحابنا رحمهم الله حق حبس المبيع لاستيفاء الثمن إذا كان حالاً كذا في المحيط.
و إن كان مؤجلاً فليس للبائع أن يحبس المبيع قبل حلول الأجل و لا بعده . ( هنديه: 3/ 15، والرهن السائل )
- وإن هذه الملاحظ الخمسة قد تجعلني أميل إلى جواز الرهن السائل. ( أحكام البيع بالتقسيط، ص: 17، للشيخ تقي عثماني حفظه الله )
- و ينعقد بإيجاب و قبول ( أي الرهن، الناقل ) و قال الشامي رحمه الله تحته: و نقل القهستاني عن الكرماني أنه يجوز بطريق التعاطي. و قال الشامي رحمه الله : و لفظ الرهن غير شرط. فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved