• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قرآن کی آیت” رب المشرقین و رب المغربین” کی تفسیر

استفتاء

قرآن میں” رب المشرقین و رب المغربین” کا کیا مطلب ہے؟میرا مطلب ہے کہ دو مشرق اور دو مغرب کیسے ہوسکتے ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

عربی زبان میں مشرق ومغرب جیسے چار سمتوں میں سے ایک سمت کا نام ہے ایسے ہی مشرق اور مغرب سورج کے طلوع ہونے اور غروب ہونے کی جگہ کو بھی کہتے ہیں اور چونکہ سورج کے طلوع ہونے کی جگہ سردی اور گرمی کے موسم میں مختلف ہوتی ہے اسی طرح سورج کے غروب ہونے کی جگہ بھی سردی اور گرمی میں مختلف ہوتی ہے اس لحاظ سے مشرق بھی دو ہوگئے اور مغرب بھی، اسی کو آیت  مبارکہ میں مشرقین اور مغربین سے تعبیر فرمایا ہے۔

چنانچہ تفیسر ابن کثیر (4/213) میں ہے:

رب المشرقين ورب المغربين يعني: ‌مشرقي ‌الصيف والشتاء، ومغربي الصيف والشتاء

تفسیر قرطبی (15/63) میں ہے:

” رب المشرقين ورب المغربين” أراد بالمشرقين أقصى مطلع ‌تطلع ‌منه الشمس في الأيام الطوال، وأقصر يوم في الأيام القصار.

معارف القرآن (8/247) میں ہے:

"سردی اور گرمی میں آفتاب  کا مطلع بدلتا ہے، اس لیے سردی کے زمانے میں مشرق یعنی آفتاب کے نکلنے کی جگہ اور ہوتی ہے اور گرمی کے زمانے میں دوسری، انہی دونوں جگہوں کو آیت میں مشرقین سے تعبیر فرمایا  ہے۔ اسی طرح اس کے بالمقابل مغربین  فرمایا کہ سردی میں غروب آفتاب کی جگہ اور ہوتی ہے اور گرمی میں  دوسری”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved