• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قربانی کی کھال مسجد اور رفاہی اداروں میں استعمال کرنا

  • فتوی نمبر: 3-326
  • تاریخ: 10 دسمبر 2010

استفتاء

1۔ کیا  قربانی کی کھال مسجد کو مدرس، مؤذن امام کو دی جاسکتی ہے اور مسجد کی ضروریات میں اس کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے؟

2۔ قربانی کے موقع پر بہت ادارے جو رفاہی کام کررہے ہیں ہسپتال بنارہے ہیں ۔ لوگوں کا علاج معالجہ کی رقم سرف کر رہے ہیں۔ویلفئر ٹرسٹ بنا کر لوگوں سے اور رقوم کے علاوہ قربانی کی کھالیں بھی اکٹھی کر رہے ہیں۔ کیا ان اداروں کو قربانی کی کھال دینا صحیح ہے ؟ یہ بھی بتائیں کہ قربانی کی کھالوں کا صحیح مصرف کیا ہے؟۔

کیا علم دین پڑھنے والے طلباء  کی معاونت کے لیے مدارس کو کھال دی جاسکتی ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

قربانی کی کھال کسی کی ملکیت میں دینا ضروری ہے مثلاً کسی فقیر کو قبضہ یا کسی غنی کو ہدیہ پھر خواہ وہ مدرس ہو، امام ہو، مؤذن ہو یا اپنا عزیز ہو یا محلے دار ہو۔

مسجد،ہسپتال اور دیگر رفاہی اداروں کو دینے میں تملیک نہیں ہوتی اس لیے ان اداروں کے نام سے دینا صحیح نہیں، البتہ وہ ان کو فروخت کرکے ان کی قیمت فقراء مریض کو دوا خرید کردیں یا فقیر مریض کے ہاتھ پر رکھ کر  اس سے دیگر اخراجات  مثلاً ٹیسٹ کی رقم لیں تو جائز ہے۔

اگر قربانی کرنے  والے نے کھال فروخت کردی ہو تو اس کی قیمت فقط فقیروں پر صدقہ کریں۔

مدرسہ والوں کو دے سکتے ہیں پھر یہ مدرسہ والوں کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ شریعت کے حکم کے مطابق خرچ کریں۔

 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved