• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قربانی میں جانور کے مکان کا اعتبار ہے نہ کہ قربانی والے کے مکان کا

  • فتوی نمبر: 7-271
  • تاریخ: 09 جون 2015

استفتاء

میرا کاروبار*** میں ہے اور مستقل طور  پر *** کا رہنے والا ہوں، میں عید الاضحیٰ*** میں مناتا ہوں، لیکن*** میں حکومت سے ایک یا دو دن پہلے عید ہوتی ہے، اس میں مسافر لوگوں کو قربانی کا ایک مسئلہ پیش آتا ہے۔ گاؤں والے مختلف لوگ جمع ہو کر سات آدمی ایک جانور میں شریک ہوتے ہیں، لیکن قربانی کے ایک دو آدمی***،*** وغیرہ شہروں میں ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس طرح قربانی کرنے سے قربانی میں شریک ان مسافروں کی قربانی ہو جاتی ہے؟ جو ایک یا دو دن بعد حکومت کے ساتھ عید کرتے ہوں۔ اور مقیم لوگوں کے جو جانور میں ان کا حصہ ہوتا ہے ان کی قربانی کا کیا مسئلہ ہے؟

ہمارے علاقے میں اس مسئلہ کے بارے میں کافی اختلاف ہو رہا ہے۔ ایک طبقہ مسافروں اور مقیم دونوں  کی قربانی کو درست

کہتا ہے اور دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ ایسے لوگوں کی قربانی نہیں ہوتی۔ قربانی مسافروں کی اجازت سے ہوتی ہے۔

دونوں طبقوں کی قربانی نہ ہونے کے بارے میں ان کتابوں کے حوالے دیتے ہیں: "بدائع الصنائع: 6/ 308، رد المحتار: 9/ 379، فتاویٰ قاضیخان: 3/ 229″۔ مہربانی فرما کر مسئلے کی مکمل وضاحت کتابوں کے حوالوں سے فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

قربانی کے مسئلے میں جانور کی جگہ کا اعتبار ہوتا ہے، کہ وہاں وقت ہوا ہے یا نہیں؟ قربانی کرنے والے کی جگہ کا نہیں۔

المعتبر مكان الأضحية لا مكان من عليه. (رد المحتار: 9/ 529)

اس لیے جو شخص***میں عید کرے اور چاہے کہ اپنی قربانی باجوڑ میں کرے جہاں عید ایک دن پہلے ہو جاتی ہے تو ایسا کر سکتا ہے۔ جو لوگ اختلاف مطالع کا اعتبار نہیں کرتے جیسا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نہیں کرتے ان کے نزدیک اس کی گنجائش ہے، پھر جو حوالہ ذکر ہوا ہے وہ مطلق ہے کسی قید کے ساتھ مقید نہیں ہے۔ البتہ احتیاط بہتر ہے، لیکن جواز کی گنجائش سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے کیونکہ موجودہ دور میں عموم بلویٰ یعنی ابتلائے عام بھی ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved