• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ربیع الاول میں بارہ ربیع الاول کے علاوہ مجلس رکھنا

استفتاء

عرض یہ ہے کہ اگر کوئی بارہ ربیع الاول کے علاوہ تیرہ یا پندرہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں پروگرام رکھے تو  آیا یہ شریعت کی رو سے درست ہے یا نہیں؟  جواب مدلل اور مفصل چاہیے

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ پروگرام  درست  نہیں کیونکہ ایسا کرنے میں ایک تو مذکورہ مہینے کی تخصیص ہے دوسرے عموماً ایسے پروگرام کے لیے تداعی لازمی ہے اور مستحب کے لیے تداعی جائز نہیں تیسرے اس میں اہل بدعت کے ساتھ مشابہت ہے چوتھے ایسا پروگرام عوام کے لیے موہم ہے کیونکہ عوام عموماً ایسے پروگراموں سے اہل بدعت کے پروگراموں کو جائز سمجھنے لگتی ہے اور عوام کے لیے دونوں میں فرق کرنا مشکل ہے اور مستحب عمل جب کسی ناجائز امر کا موہم ہو تو اسے اختیار کرنا درست نہیں۔ہاں اگر مذکورہ پروگرام میں نہ مہینے کی تخصیص ہو نہ تداعی ہو نہ مشابہت ہو نہ یہ پروگرام موہم ہو اور ا س پروگرام میں حاضرین کو اس پروگرام اور اہل بدعت کی محفل ِ میلاد کا فرق واضح کردیا جائے  اور نہ ہی اس میں دیگر خرابیاں ہوں مثلا ًاسراف ، ضرورت سے زائد روشنی، غیر مستند روایات کو ذکر کرنا وغیرہ وغیرہ تو بلاشبہ ایسا پروگرام باعث برکت و ثواب و باعث سعادت ہے۔

مکتوبات شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ (3/181) میں ہے:

’’سیرت کمیٹی کا انشاء اور اختراع قادیانیوں کی طرف سے تو نہیں ہوا مگر بعض اوقات اس سے قادیانیوں نے ضرور فائدہ اٹھایا ۔۔۔۔خلاصہ یہ ہے کہ یہ امر [جلسہ سیرت]نہایت مستحسن ہے بشرطیکہ اس کے لیے کوئی تاریخ اور مہینہ متعین نہ ہو، کبھی صفر میں ہو تو کبھی جمادی الاولیٰ میں، تو کبھی ربیع الاول میں ہو تو کبھی رجب میں، غرض بارہ پندرہ ربیع الاول کی ہمیشہ تعیین  نہ  ہو،نیز سال  میں صرف ایک مرتبہ نہ ہو بلکہ دوسرے ،تیسرے مہینے جب موقع ہو کر لیا کریں[تاکہ زمانے کی تعیین و تخصیص اور مشابہت نہ رہے۔از ناقل] اسی طریقے سے سیرت پر بیان کرنے والا کوئی معتبر شخص ہو جو کہ صحیح اور قوی روایتیں بیان کرے اور عوام کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل زندگی سے آگاہ کرے۔ جب تک اس قسم کے بیانات عوام کے سامنے کثرت سے نہیں ہوں گے اس وقت تک مناسب فائدہ نہیں ہوگا اسلام پر اعتراض کرنے والے زہر آلودہ پروپیگنڈوں سے عوام کو اسی طرح محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ہم ہرگز تعین تاریخ و ماہ کے ساتھ سالانہ ایک جلسہ کو شرعی اور ملکی نقطہ نظر سے نہ مفید سمجھتے ہیں اور نہ ضروری بلکہ یہ مثل عمل نصاری (برتھ ڈے) یوم پیدائش اور اس کی رسوم کے ایک رسم ہو رہی ہے۔ کیونکہ عیسائی یوم ولادت عیسی علیہ السلام مناتے ہیں اس کو دیکھ کر مصر وغیرہ کے لوگ بھی اس کا عمل کرنے کے لئے آمادہ ہو رہے ہیں۔

کفایت المفتی(1/150)میں ہے:

(سوال)بہ تقریب ماہ ربیع الاول مجالس وعظ و  تبلیغ منعقد کرنا جن میں حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت طاہرہ اور آپ کے فضائل و مناقب بیان کرنا دینی و دنیوی حیثیت سے باعث خیرو برکت ہے یا نہیں؟

(جواب ۱۵۶) آنحضرت ﷺ کی سیرت مبارکہ کا ذکر کرنا دینی حیثیت سے موجب صد خیر و برکت ہے اور  دنیوی حیثیت سے حضور ﷺ کے فضائل و مناقب اور کمالات کی تبلیغ و اشاعت بے حد مفید ہے اور انسانیت کی بیش بہا خدمت ہے ، لیکن اس کے لئے ماہ ربیع الاول یا اس مہینے کی کسی تاریخ کی تخصیص نہیں ہے بلکہ سال بھر کے تمام مہینے اور تمام ایام میں یہ خدمت انجام دینا اور اس عمل خیر کو عمل میں لانا یکساں موجب ثواب ہے ۔۔۔۔۔  (جواب ۱۵۷) نمبر ۲۷۵۷دیگر ۔ آنحضرت ﷺ کے حالات طیبہ کی اشاعت و تبلیغ کی غرض سے مجالس سیرت منعقد کرنا جائز اور مستحسن ہے ۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ ان مجالس کو بدعات مروجہ سے پاک رکھا جائے ۔ اور ان کو عید میلاد یا مجلس مولود کا لقب نہ دیا جائے ۔ اور نہ ماہ ربیع الاول یا بارہویں تاریخ کے ساتھ مخصوص سمجھا جائے ۔        

حضرت سہارنپوری ؒبراہین (ص:153)میں لکھتے  ہیں:

’’ذکر مولود مندوب ہے مگر تداعی و اہتمام اس کا  کہیں سلف سے ثابت نہیں بدعت ہوگا۔البتہ درس و وعظ میں تداعی ثابت ہے کیونکہ وہ فرض ہے جیسا فرائض الصلاۃ میں تداعی ضروری ہے‘‘

فتاوی خلیلیہ(1/364)میں ہے:

حدیث  من تشبه بقوم فهو منهم کے جس  امر میں تشبہ کا گمان بھی ہو وہ اہل سنت کے لیے کسی طور سے جائز نہیں ہوسکتا ہے۔۔۔۔

مواعظ میلاد النبیﷺ، (ص: 244-243)میں ہے:

ان سب نظائر سے یہ امر کالشمس فی نصف النھار واضح ہو گیا کہ جس طرح اپنے عقیدہ و دین کی حفاظت ضروری ہے عوام کے عقیدہ و دین کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ اب ممکن ہے کہ بعض کرنے والے احتیاط کر لیں ، مگر عوام جو ان کے معتقد و مقلد ہیں ان کو نہ ان خرابیوں پر نظر ہے نہ ان سے بچنے کی احتیاط نہ ان کو یہ خبر ہے کہ ہمارے بزرگوں کے اور ہمارے عمل میں کیا فرق ہے صرف انہوں نے یہ دیکھ لیا کہ ہمارے فلاں بزرگ یہ عمل کرتے ہیں پس خود بھی جس طرح چاہا کرنے لگے۔

کفایت المفتی(1/151)میں ہے:

(جواب ۱۵۸) آنحضرت ﷺ کے حالات طیبہ اور فضائل وکمالات آپ کی رسالت و  تبلیغ کی خدمات کا بیان ہر وقت جائز بلکہ مستحسن ہے۔ لیکن صرف ذکر و لادت شریفہ کے لئے اسی نام سے مجلس میلاد منعقد کرنا سلف صالحین میں نہیں پایا گیا ۔۔۔۔۔ قول راحج یہ ہے کہ حضور ﷺ کے حالات طیبہ بیان کرنے کے لئے بطور مجلس وعظ کے اجتماع ہو، اس میں حضور ﷺ کے کمالات بیان کیئے جائیں ، صحیح روایات بیان کی جائیں ۔ اسراف اور دیگر بدعات سے مجلس خالی ہو تو جائز ہے ۔

بارہ مہینوں کے فضائل و مسائل للتھانویؒ (ص:23) میں ہے:

اس ماہ ِ مبارک کو یہ فضیلت ہے کہ یہ زمانہ ہے تولد شریف حضور ِ پُرنور سید بنی آدم فخرِ عالم ﷺ کا اور جس قدر زیادہ فضیلت کسی زمانہ کی ہوتی ہے اس زمانہ میں حدود شرعیہ سے تجاوز کرنا عند اللہ والرسول ﷺ اسی قدر زیادہ ناپسندیدہ ہوتا ہے، اور حدود سے تجاوز کرنے کا معیار صرف علم ہےان حدود کا بواسطہ ادلہ اربعہ شرعیہ یعنی کتاب و سنت و اجماع و قیاس ِمجتہد مقبول الاجتہاد وعند اکابر الامۃ کے اور ان ادلہ سے ثابت ہوچکا ہے کہ اس ماہِ مبارک میں جو بعض اعمال بعض عمال میں رائج و شائع ہوگئے ہیں مثل اہتمام و انعقاد مجلس مولد  شریف بہ تخصیصاتِ معروضہ و قیود معلومہ خصوص انضمام دیگر منکرات، و مثل اعتیاد عید میلاد ، یہ سب منجملہ افراد تجاوز عن الحدود الشریعہ کے ہیں۔ پس لا محالہ غیر مرضی عند اللہ والرسولﷺ ہوئے اور بوجہ فضیلت اس زمانہ کے غیر مرضی ہونے میں بھی اوکد ہوئے پس لا بد واجب الاحتیاط ہوئے۔ البتہ حدود کے اندر رہ کر ذکر مبارک رسولِ مقبول ﷺ منجملہ اعظم البرکات افضل القربات ہے کہ کسی مومن کو خصوص ساعی فی اتباع السنۃ کو اس میں کلام نہیں ہوسکتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved