• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ربیع الاول میں میلاد یا سیرت کے عنوان سے کانفرنس یا جلسہ کرنا یااسی مہینے میں وعظ و درس وغیرہ میں میلاد یا سیرت بیان کرنا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ماہ ربیع الاول میں بڑے پیمانے پر مختلف انداز سے محافل میلاد منائی جاتی ہیں اس سلسلےمیں درج ذیل محافل کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

1- بارہ ربیع الاول یا ماہ ربیع الاول میں میلاد کے عنوان سےایسی مجالس قائم کرناجن میں تشہیر تو ہو(یعنی ان مجالس میں لوگوں کو آنے کی اگرچہ باقاعدہ دعوت نہ دی گئی ہوتاہم ان مجالس کے قیام کا اشتہار دیا گیا ہو)لیکن ان مجالس میں اسراف،روشنی اور دیگرخرابیاں نہ ہوں جن کا تذکرہ المھند وغیرہ میں ہے۔

2- بارہ ربیع الاول یا ماہ ربیع الاول میں سیرت کے عنوان سے  کانفرنس یا جلسہ کرنا۔

3- بارہ ربیع الاول یا ماہ ربیع الاول میں کسی دیگر عنوان (مثلاًتکمیل قرآن وغیرہ کے عنوان) سے جلسہ کرنامگربارہ ربیع الاول یا کم از کم ماہ ربیع الاول کو ملحوظ رکھنا ۔

4- بارہ ربیع الاول یا ماہ ربیع الاول میں محدود پیمانے پر ایسا پروگرام کرنا جیسے کسی ادارے میں سیرت کے عنوان سے بزم کرنا ۔

5-ربیع الاول میں جمعہ کے وعظ میں یابارہ ربیع الاول یا ربیع الاول میں  درس کے معمول کے وعظ میں میلاد کو یا سیرت کو بیان کرنا۔

6-ربیع الاول میں جمعہ یا معمول کے بیانات و دروس میں اس موضوع پر اصلاحی و تنقیدی انداز سے گفتگو کرنا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1-میلاد یعنی عید میلاد النبیﷺ کے عنوان سے کوئی بھی مجلس قائم کرنا جائز نہیں خواہ اس میں تداعی ہو یا نہ ہو اورخواہ  اس میں دیگر خرابیاں ہوں یا نہ ہوں نیز   اس عنوان سے بارہ ربیع الاول کو کوئی مجلس قائم کی جائے یا ربیع الاول کے پورے مہینے میں کسی اور دن یا پورے سال میں کسی بھی دن اس عنوان سے  مجلس قائم کی جائے،ان سب صورتوں کا ایک ہی حکم ہے یعنی اس عنوان سے مجلس قائم کرنا جائز نہیں کیونکہ اسلام میں دو عیدوں  کے علاوہ کسی تیسری عید کا کوئی تصور نہیں۔

اور اگر میلاد کی مجلس ’’عید میلادالنبیﷺ‘‘ کے عنوان سے قائم نہ کی جائے بلکہ محض’’میلاد‘‘ کے عنوان سے قائم کی جائے تو اس مجلس کو قائم کرنے کے لیے تداعی کی صورت (خواہ تداعی بصورت اشتہار ہی ہو)اختیار کرنا جائز نہیں، دیگر خرابیاں ہوں یا نہ ہوں۔البتہ تداعی کی صورت کے بغیر میلاد کی مجلس مستحب ہے(جبکہ اسراف،روشنی وغیرہ کی خرابیاں نہ ہوں)بشرطیکہ اس کے لیے(۱)  نہ تو بارہ ربیع الاول کی تخصیص کی جائے (۲) نہ ہی ربیع الاول کے مہینے کی تخصیص کی جائے (۳)  نہ ہی ایسی مجلس قائم کرنے سے عوام کو یا عام اہل علم کو مروجہ مجالس میلاد (جن میں متعدد خرابیاں ہیں جن کی تفصیل المہند،براہین قاطعہ و غیرہ کتب اکابر میں  موجود ہے)کے جواز کا شبہ ہو۔

کفایت المفتی(1/153)میں ہے:

(السوال)عید میلاد النبی موجودہ وقت میں مذہبی حیثیت رکھتا ہے یا نہیں ؟

(جواب۱۶۱) عید میلا د النبی کے نام سے کوئی جلسہ کرنا صحیح نہیں ۔  ہاں سیرت مقدسہ کی تبلیغ وبیان کے لئے جلسہ کرنے میں مضائقہ نہیں ۔ اور اس کے لئے کسی خاص تاریخ کی تخصیص نہیں اور فضولیات و بدعات سے احتراز رکھنا لازم ہے ۔

کفایت المفتی(1/155)میں ہے:

[سیرت کے]اس سیدھے سادے عنوان کو ہم نے بھی تبلیغ و تذکیر کا ایک طریقہ اور موثر ذریعہ سمجھ کر انعقاد مجالس سیرت کی اجازت دی تھی۔ ۔۔۔۔مسلمانوں نے بہت جلد جلسہ ہائے سیرۃ کی اصلی غرض و غایت کو نظر انداز کر کے انہیں رسمی محافل میلاد میں مدغم کر دیا ۔ پہلے تو بجائے جلسہ سیرۃ کے ان اجتماعات کا نام ہی عید میلاد کردیا ۔ جو یقینا قرون اولیٰ مشہود لہا بالخیر کے خلاف ایک نئی ایجاد تھی اور اسلام کی سچی ثابت عیدین (عید الفطر و عیدالاضحی) پر ایک جدید عید کا اضافہ تھا ۔ جو ایک متبع سنت مسلمان کی اسلامی واقفیت میں ناقابل قبول ہے۔ پھر ان جلسوں کے لئے ایک معین تاریخ ۱۲ ربیع الاول لازم کردی گئی ۔ اس کے بعد جلسوں کے اوپر جلوسوں کا اضافہ کیا گیا اور منچلے لوگوں نے باجوں اکھاڑوں کھیلوں تماشوں کو شامل کر کے اسے اچھا خاصہ مجموعہ لہو ولعب بنادیا ۔ فالی اللہ المشتکی وانا للہ وانا الیہ راجعون ۔۔۔۔۔اس تقریب کو بہیئت کذائی منانے کے لئے (یعنی عید میلاد یا جشن میلاد کے نام سے مخصو ص تاریخ ولادت میں یا کسی اور تاریخ میں منانے کے واسطے ) نہ قرآن پاک میں کوئی نص ہے۔ نہ حدیث میں نہ صحابہ کرام یا تابعین عظام یا مجتہدین امت خیر الا نام کی قولی یا فعلی ہدایات میں کہیں اس کا وجود ہے ۔

فتاوی رشیدیہ(کتاب البدعات صفحہ:234)میں ہے:

سوال :مولود شریف اور عرس کہ جس میں کوئی بات خلاف شرع نہ ہو جیسے کہ حضرت شاہ عبد العزیز ؒ کیا کرتے تھے آپ کے نزدیک جائز ہے یا نہیں؟اور شاہ صاحبؒ واقعی مولود اور عرس کرتے تھے یانہیں؟

جواب:عقد مجلس مولود اگر چہ اس میں کوئی امر غیر مشروع نہ ہو مگر اہتمام و تداعی اس میں بھی موجود ہےلہٰذا اس زمانے میں درست نہیں وعلی ہذا عرس کا جواب ہے بہت اشیاء ہیں کہ اول مباح تھیں پھر کسی وقت میں منع ہوگئیں مجلس عرس و مولود بھی ایسا ہی ہے۔

 

فتاوی خلیلیہ(1/364)میں ہے:

حدیث  من تشبه بقوم فهو منهم کے جس  امر میں تشبہ کا گمان بھی ہو وہ اہل سنت کے لیے کسی طور سے جائز نہیں ہوسکتا ہے۔۔۔۔

امداد الفتاوی جدید،کتاب البدعات(11/461)میں ہے:

سوال (۳۲۵۹) : قدیم ۵/۳۱۵-: مجلس میلاد نبی ﷺ میں ذکر فضائل ومحامد وشمائل ہی ہوا کر تا ہے کیا جہال کی مجلس ہو یا علماء کی ،فرق اگر کچھ ہوگا تو غلط صحیح روایت کا فرق ہوگا۔ اور مجلس وعظ میں بھی ایسا ہی ذکر خیر ہوا کرتا ہے تو معلوم نہیں مجلس میلاد شریف کیوں علماء میں مختلف فیہ ہے اور مجلس وعظ متفق علیہ ہے۔ حالانکہ تداعی تکلف وغیرہ مروجہ سے کسی کی کوئی مجلس خالی نہیں رہتی ہے اورحضرت مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی حکیم الامت کی کتاب موسومہ نشر الطیب [بذکر النبی الحبیب]کے نام سے خود ظاہر ہے کہ اس مجلس کے لئے تداعی ضرور ہے کیوں کہ بغیر تداعی نشر مشکل ہے۔ جب دعوت ہوگی لوگ جمع ہوں گے، تکلف وتزئین ضروری ہے، براہ کرم مفصل ومدلل جواب سلیس ارقام فرمائیے، کہ اختلاف علماء وجہلاء وعلماء وعلماء اگر مٹ نہ جائے تو خد ا چاہے کم ضرور ہو جائے؟

الجواب: لفظ نشر سے استدلال تو غیر تام ہے۔ نشر خود رسالہ کی اشاعت سے بھی ممکن ہے باقی اصل وجہ منع کی رسوم جہلاء ہیں جن سے کم کوئی مجلس خالی ہوتی ہے اور کسی محتاط نے احتیاط بھی کی تب بھی اس کی یہ مجلس سبب ہوگی عوام کی بے احتیاطی کی مجالس کی اور فی نفسہ وہ مجلس ضروری نہیں اور جو فعل غیر ضروری خواص کا سبب ہو جاوے مفسدۂ عوام کا اس سے منع کیا جانا قاعدہ فقہیہ ہے بخلاف مجلس وعظ کے کہ وہ فی نفسہ ضروری ہے وہاں مفاسد کا انسداد کریں گے۔ خود اس کو ترک نہ کریں گے فافترقا۔

 حضرت تھانویؒ میلاد النبی (136)میں لکھتے ہیں:

’’دوسری قسم وہ چیزیں ہیں جن کا سبب قدیم ہے جیسے مجالس میلاد مروجہ اور تیجہ،دسواں،چہلم وغیرہ من البدعات کہ ان کا سبب قدیم ہے۔مثلاًمجلس میلاد کے منعقد کرنے کا سبب فرح علی الولادۃ النبویہ ہے اور یہ سبب حضورﷺ کے زمانے میں بھی موجود تھا لیکن حضورﷺ نے یا صحابہ ؓ نے یہ مجالس منعقد نہیں کیں ۔نعوذباللہ صحابہ کا فہم یہاں تک نہیں پہنچا۔اگر سبب اس کا اس وقت نہ ہوتا تو البتہ یہ کہہ سکتے کہ منشا  اس کا موجود نہ تھا لیکن جبکہ باعث اور بناء اور مدار موجود تھا تو پھر کیا وجہ ہے کہ نہ حضورﷺ نے کبھی مجلس میلاد منعقد کی اور نہ صحابہ رضی اللہ عنھم نے۔ایسی چیزوں کا حکم یہ ہے کہ وہ بدعت ہیں صورتاً بھی اور معنًا بھی ۔اور حدیث ’’من احدث في امرنا هذا ما ليس منه‘‘میں داخل ہوکر واجب الرد ہیں اور پہلی قسم ’’مامنه‘‘میں داخل ہوکر مقبول ہے۔

یہ قاعدہ کلیہ ہے بدعت اور سنت کے پہچاننے کا ۔اس سے تمام جزئیات کا حکم  مستنبط ہوسکتا ہے۔‘‘

حضرت سہارنپوری ؒبراہین (153)میں لکھتے  ہیں:

’’ذکر مولود مندوب ہے مگر تداعی و اہتمام اس کا  کہیں سلف سے ثابت نہیں بدعت ہوگا۔البتہ درس و وعظ میں تداعی ثابت ہے کیونکہ وہ فرض ہے جیسا فرائض الصلاۃ میں تداعی ضروری ہے‘‘

کفایت المفتی(9/41)میں ہے:

کسی ایسے جلسے کا اہتمام کرنا جو قرون اولی میں نہ پایا جاتا ہو اور اس میں ان  امور کا التزام کرنا جو شرعاً ضروری نہیں ہیں  نیز جن کی وجہ سے بقرائن تو یہ بات متصور ہو کہ آنے والوں کی نیت عبادت کی نہیں بلکہ اکل و شرب یا لہو و لعب کی ہے یہ تمام امور خلاف سنت ہیں ان کا کوئی ثبوت شرعی نہیں ہے

کفایت المفتی(1/151)میں ہے:

(جواب ۱۵۸) آنحضرت ﷺ کے حالات طیبہ اور فضائل وکمالات آپ کی رسالت و  تبلیغ کی خدمات کا بیان ہر وقت جائز بلکہ مستحسن ہے۔ لیکن صرف ذکر و لادت شریفہ کے لئے اسی نام سے مجلس میلاد منعقد کرنا سلف صالحین میں نہیں پایا گیا ۔۔۔۔۔ قول راحج یہ ہے کہ حضور ﷺ کے حالات طیبہ بیان کرنے کے لئے بطور مجلس وعظ کے اجتماع ہو، اس میں حضور ﷺ کے کمالات بیان کیئے جائیں ، صحیح روایات بیان کی جائیں ۔ اسراف اور دیگر بدعات سے مجلس خالی ہو تو جائز ہے ۔

کفایت المفتی(1/152)میں ہے:

آنحضرت ﷺ کے حالات و واقعات اور فضائل و معجزات کا بیان کرنا مسلمانو  ں کیلئے بصیرت افروز اور موجب سعادت د ارین ہے۔۔۔۔ یہ کہ مجلس خاص اہتمام سے اور میلاد کے نام سے منعقد کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ۔ اس لئے بہتر ہے کہ مجالس وعظ سے ہی یہ کام لیا جائے ۔

2-سیرت کے عنوان سے کانفرنس یا جلسہ کرنا جائز ہےبشرطیکہ(۱)  نہ تو اس میں ربیع الاول یا بارہ ربیع الاول کی تخصیص ہو (۲) نہ اس میں عید میلاد النبیﷺ کے ساتھ مشابہت ہو (۳) نہ ہی اس سے عوام کویاعام اہل علم کو میلاد مروجہ کی ناجائز صورتوں کے جواز کا شبہ ہو جس کی صورت یہ ہے کہ اسے بارہ ربیع الاول یا ربیع الاول  کے مہینے کے ساتھ  خاص نہ کیا جائے یعنی اگر کبھی ربیع الاول یا بارہ ربیع الاول کو کسی خاص وجہ سے کرنے کی نوبت آجائے تو اسے مستقل معمول نہ بنایا جائے۔

کفایت المفتی(1/481)میں ہے:

حضور ﷺ کی سیرۃ مبارکہ کے بیان و تبلیغ اور حضور ﷺ کی تعلیم کی اشاعت کے لئے اجتماع منعقد کرنا اور اس میں مسلموں اور غیر مسلموں کو دعوت دینا اورحضور ﷺ کے فضائل و کمالات بیان کرنا جائز ہے ۔ ابتداء میں یہ جلسے اسی غرض سے تجویز ہوئے تھے ، اور سیرت کے بیان کے لئے یہ مقرر کئے گئے تھے اور اسی صورت سے میں نے بھی ان جلسوں کے موافق رائے ظاہر کی تھی مگر اس شرط کے ساتھ کہ اس کی کوئی تاریخ ہمیشہ کے لئے معین نہ کی جائے  بلکہ ہر سال موسم کے لحاظ سے ایک مناسب تاریخ کا اعلان کر دیا جایا کرے ۔ یا سال کی پہلی تاریخ (یکم محرم ) مقرر کردی جائے تاکہ عید میلاد کا شبہ نہ ہو اور یہ نام جو غیرشرعی ہے قائم نہ ہوجائےاور اصل مقصد جو نہایت نیک اور اہم ہے  وہ حاصل ہوجائے یعنی آنحضرت ﷺ اروا حنا فداہ کے فضائل و کمالات چار دانگ عالم میں پہنچ جائیں اور غیر مسلموں کو بھی حضور ﷺ کے کمالات ذاتیہ کا علم ہوجائے اور اسلامی تعلیم کی فضیلت بھی آفتاب نصف النہار کی طرح واضح ہوجائے۔ مگر افسوس کہ لوگوں نے ان جلسہ ہائے سیرت کو مجالس میلا د بنا لیا اور وہ وہ باتیں شامل کرلیں جو نہ صرف اصل مقصد سے دور ہیں بلکہ ان کا دارو مدار ریاونمود اور شہرت و ناموری حاصل کرنے کے نامناسب و ناملائم جذبات پرہے۔ اکثر حالات میں ان مجالس سے فائدہ کے بجائے دینی ضرر کا خوف ہے اور غیر مسلموں کے دل پر بھی اس کا کچھ اچھا اثر نہ ہوگا ۔

کفایت المفتی(1/156)میں ہے:

اشاعت سیرۃ مقدسہ کے لئے سادہ طریق پر جلسہ سیرت کے نام سے اجتماع کیا جائے تو وہ تو تبلیغ و تذکیر کی شرعی ثابت شدہ اصل کے ما تحت آسکتا ہے۔

حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا خلافت کمیٹی کاندھلہ کے نام مکتوب(مکتوبات شیخ الاسلام3/181)

’’سیرت کمیٹی کا انشاء اور اختراع قادیانیوں کی طرف سے تو نہیں ہوا مگر بعض اوقات اس سے قادیانیوں نے ضرور فائدہ اٹھایا ۔۔۔۔خلاصہ یہ ہے کہ یہ امر [جلسہ سیرت]نہایت مستحسن ہے بشرطیکہ اس کے لیے کوئی تاریخ اور مہینہ متعین نہ ہو، کبھی صفر میں ہو تو کبھی جمادی الاولیٰ میں، تو کبھی ربیع الاول میں ہو تو کبھی رجب میں، غرض بارہ پندرہ ربیع الاول کی ہمیشہ تعیین  نہ  ہو،نیز سال  میں صرف ایک مرتبہ نہ ہو بلکہ دوسرے ،تیسرے مہینے جب موقع ہو کر لیا کریں[تاکہ زمانے کی تعیین و تخصیص اور مشابہت نہ رہے۔از ناقل] اسی طریقے سے سیرت پر بیان کرنے والا کوئی معتبر شخص ہو جو کہ صحیح اور قوی روایتیں بیان کرے اور عوام کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل زندگی سے آگاہ کرے۔ جب تک اس قسم کے بیانات عوام کے سامنے کثرت سے نہیں ہوں گے اس وقت تک مناسب فائدہ نہیں ہوگا اسلام پر اعتراض کرنے والے زہر آلودہ پروپیگنڈوں سے عوام کو اسی طرح محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ہم ہرگز تعین تاریخ و ماہ کے ساتھ سالانہ ایک جلسہ کو شرعی اور ملکی نقطہ نظر سے نہ مفید سمجھتے ہیں اور نہ ضروری بلکہ یہ مثل عمل نصاری (برتھ ڈے) یوم پیدائش اور اس کی رسوم کے ایک رسم ہو رہی ہے۔ کیونکہ عیسائی یوم ولادت عیسی علیہ السلام مناتے ہیں اس کو دیکھ کر مصر وغیرہ کے لوگ بھی اس کا عمل کرنے کے لئے آمادہ ہو رہے ہیں۔

کفایت المفتی(1/150)میں ہے:

(سوال)بہ تقریب ماہ ربیع الاول مجالس وعظ و  تبلیغ منعقد کرنا جن میں حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت طاہرہ اور آپ کے فضائل و مناقب بیان کرنا دینی و دنیوی حیثیت سے باعث خیرو برکت ہے یا نہیں؟

(جواب ۱۵۶) آنحضرت ﷺ کی سیرت مبارکہ کا ذکر کرنا دینی حیثیت سے موجب صد خیر و برکت ہے اور  دنیوی حیثیت سے حضور ﷺ کے فضائل و مناقب اور کمالات کی تبلیغ و اشاعت بے حد مفید ہے اور انسانیت کی بیش بہا خدمت ہے ، لیکن اس کے لئے ماہ ربیع الاول یا اس مہینے کی کسی تاریخ کی تخصیص نہیں ہے بلکہ سال بھر کے تمام مہینے اور تمام ایام میں یہ خدمت انجام دینا اور اس عمل خیر کو عمل میں لانا یکساں موجب ثواب ہے ۔ نیز اس مجلس کی حیثیت بھی مجلس وعظ و تذکیر کی حیثیت ہے ۔ نہ عیدو جشن میلاد کی، اور یہ بھی لازم ہے کہ اس کوبدعات مروجہ سے محفوظ اور پاک رکھا جائے ۔ عام طور سے مجالس سیرت کے نام سے لوگ میلاد مروج کے جلسے کرتے ہیں اوران میں وہ تمام بدعات جو قدیم مبتدعین کیا کرتے تھے عمل میں لاتے ہیں ، یہ باتیں مذموم ہیں اور مجلس کے اصل مقصد کے خلاف ہیں اور اس کے فائدہ کو تباہ کر دیتی ہیں ۔

(جواب ۱۵۷) نمبر ۲۷۵۷دیگر ۔ آنحضرت ﷺ کے حالات طیبہ کی اشاعت و تبلیغ کی غرض سے مجالس سیرت منعقد کرنا جائز اور مستحسن ہے ۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ ان مجالس کو بدعات مروجہ سے پاک رکھا جائے ۔ اور ان کو عید میلاد یا مجلس مولود کا لقب نہ دیا جائے ۔ اور نہ ماہ ربیع الاول یا بارھویں تاریخ کے ساتھ مخصوص سمجھا جائے ۔        

حضرت تھانویؒ نے خلفاء ثلاثہ کے مناقب کے بیان کے استحباب بلکہ وجوب پرلکھا ہے:

اور اس کے ساتھ  ایک مشورہ احقر بھی عرض کرتا  ہے کہ مناسب ہے کہ کوئی مجلس خاص اس ذکر کے لیے منعقد نہ کی جائے ورنہ خدشہ ہے کہ چند روز میں اس مجلس کا حال محفل مولود کا سا نہ ہوجائے،اورمواعظ کے ساتھ یہ ذکر بھی ہوجایا کرے۔و السلام علی من اتبع الہدی۔( فتاوی خلیلیہ:1/361)

فتاوی خلیلیہ(1/364)میں ہے:

حدیث  من تشبه بقوم فهو منهم کے جس  امر میں تشبہ کا گمان بھی ہو وہ اہل سنت کے لیے کسی طور سے جائز نہیں ہوسکتا ہے۔۔۔۔

خطبات حکیم الامت(5/21)میں ہے:

اب میں اس مضمون اہم کی طرف راجع ہوتا ہوں۔وہ یہ کہ یہ ماہ ربیع الاول شریف کا اور اسی میں  میں یہ مضمون بیان کر رہا ہوں ۔تو شاید پڑھے لکھے لوگوں کو شبہ ہو کہ ہم میں اور اہل بدعت میں کیا فرق رہا۔وہ بھی بیان کے لیے اس ماہ کی تخصیص کرتے ہیں اور تم نے بھی کی۔

تو بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں کوئی تخصیص نہیں۔تخصیص کیسے؟یہاں تو کوئی وعظ اور کوئی بیان اس سے خالی نہیں جاتا کہ آپ کی تشریف آوری کی حکمتیں اور غایات اور اسرارومقاصد کہ محصل ان کا اتباع کامل ہے اس میں بیان نہ ہوں۔لیکن اب بھی شاید کسی کو شبہ ہو کہ اور زمانوں میں تو اس خاص اہتمام کے ساتھ بیان نہیں ہوا۔اس طرح خاص اسی ماہ میں کیوں کیا گیا تو اس لیے عرض ہے کہ ہم نے اس ماہ کو اس ذکر کے لیےمن حيث انه زمان الولادة مخصوص نہیں کیا۔ بل من حيث انه  يذكر فيه اهل البدعة ذكر الولادة ولا يحترزون عن البدعات (یعنی اس وجہ سے تخصیص اس ماہ کی نہیں کی گئی کہ اس میں ولادت شریفہ

 ہوئی ہے اس لئے شریعت میں تو اس کا پتہ نہیں بلکہ اس وجہ سے یہ تخصیص کی ہے کہ اہل بدعت اس ماہ میں ذکر ولادت شریف کی مجالس کیا کرتے ہیں اور ان میں بدعات سے نہیں بچتے)جیسے حکیم صاحب اسی وقت دوا دیں گے جب درد ہو اور جب درد جاتا رہا گو دوا دینا اس وقت بھی اس حیثیت  سے کارآمد ہے کہ جب کبھی درد ہوگا استعمال کریں گے لیکن درد کے وقت کو تو اس وقت پر ترجیح ہوہی گئی بالفعل تو وہ کارآمد نہیں۔

ہر کجا پستی ست آب آنجارود                       ہرکجا مشکل جواب آنجارود                                                                                                                  ہر کجا دردے  دوا آنجارورد                   ہر کجا رنجے شفا آنجارود

جہاں  پستی ہوتی ہے وہیں پانی جاتا ہے۔۔۔جہاں اشکال ہوتا ہے وہیں جواب دیا جاتا ہے۔۔۔جہاں مرض ہوتا ہے وہاں دوا استعمال کی جاتی ہے ۔۔۔جہاں رنج ہوتا ہے وہیں شفا پہنچتی ہے۔

گو اس شعر میں رنج اور شفا سے مراد اور ہے یعنی طلب وعشق و وصول لیکن اگر الفاظ کے عموم سے امور منکرہ اور ان کی اصلاح کو بھی شامل ہو توکیا حرج ہے۔پس درد اور مرض جب دیکھا جاتا ہے جب ہی دوا دی جاتی ہے اور وہ مرض اسی ماہ میں شروع ہوتا ہے اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ اس کا  معالجہ اور اصلاح کی جاوے ۔بخلاف اس کے کہ چار ماہ پہلے یا پیچھے یہ مضمون بیان کیا جاتا  کہ گو مفید ہوتا لیکن اس مدت کے اندر لوگ اس کو بھول بھال جاتے  اور اتنی ہم نے ان کی مخالفت بھی کرلی کہ وہ لوگ تو بارہویں کا انتظار کرتے ہیں ہم کو اتنا صبر کہاں تھا کہ بارہویں کا انتظار کرتے۔یہاں تو اس ماہ کے شروع ہوتے ہی اضطراب شروع ہوا کہ بیان کرو ۔اس لیے  ہم نے سب سے اول کے جمعہ ہی کو شروع کردیا ۔اس مخالفت کرنے سے اب ہم پر بھی شبہ نہیں ہوسکتا۔

3-اس کا جواب بھی نمبر 2 والا ہے۔

4– اس کا جواب بھی نمبر 2 والا ہے۔

5– اس کا جواب بھی نمبر 2 والا ہے۔

6-جائز ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved