- فتوی نمبر: 34-147
- تاریخ: 08 دسمبر 2025
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات > تحقیقات حدیث
استفتاء
1۔رفع الیدین کے بارے میں حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ رفع یدین کیا کرتے تھے اور حضرت مالک بن حویرث غزوہ تبوک کے موقع پر مسلمان ہوئے ہیں تو یہ آپ ﷺ کے آخری زمانے کی نماز رفع یدین سے ثابت کرتے ہیں ۔وضاحت فرما دیں۔
2۔حجتہ اللہ البالغہ میں شاہ صاحبؒ نے رفع یدین کے متعلق حضرت عبداللہ بن مسعودؓ والی حدیث کی وضاحت بھی فرمائی ہے ۔
3۔شاہ صاحبؒ نے رفع یدین کو افضل بھی کہا ہے۔اس کی بھی وضاحت فرمادیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1)حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے رفع یدین کی جو روایت بخاری و مسلم میں ہے وہ نامکمل ہے کیونکہ اس میں رکوع کے لیے جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے رفع یدین کا تو ذکر ہے لیکن سجدوں میں جاتے ہوئے اور سجدے سے اٹھتے ہوئے اسی طرح دو رکعت کے بعد تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے ہوئے رفع یدین کا ذکر نہیں ہے جبکہ حضرت مالک بن حویرثؓ کی جو روایت سنن نسائی میں ہے اس میں اس کا بھی ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں جاتے ہوئے اور سجدے سے اٹھتے ہوئے بھی رفع یدین کیا کرتے تھے۔ لہذا معلوم ہوا کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی مکمل روایت میں سجدوں کے رفع یدین کا ذکر بھی ہے جس پر کسی کا بھی عمل نہیں۔اور جن وجوہات کے پیش نظر مالک بن حویرثؓ کی سنن نسائی والی روایت پر عمل چھوڑا گیا ہے انہیں وجاہات یا ان میں سے بعض وجوہات کے پیش نظر حنفیہ نے مالک بن حویرثؓ کی بخاری ومسلم والی روایت پر چھوڑا ہے۔
(2) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کی وضاحت سے متعلق حضرت شاہ صاحب کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے رفع یدین کو قیاس کی وجہ سے چھوڑا ہے اور ان کی توجہ دوسری طرف نہیں گئی۔
حالانکہ یہ کہنا درست نہیں ہے اس لیے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ بتایا ہے اپنا قیاس نہیں بتایا چنانچہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:ألا اصلى بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟فصلى فلم يرفع يديه إلا في أول مرة.(ترجمہ) فرمایا کہ کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ پڑھاؤں؟چنانچہ انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی تو انھوں نے تکبیر تحریمہ کے علاوہ کسی اور موقع پر رفع یدین نہیں کیا۔
(3)حضرت شاہ صاحبؒ کا رفع یدین کو افضل کہنا ان کی اپنی رائے ہے اور سب حنفیہ ان کی رائے کے پابند نہیں ہیں۔
صحيح بخاری ( رقم الحدیث 737) میں ہے:
737 – عن أبي قلابة: «أنه رأى مالك بن الحويرث إذا صلى كبر ورفع يديه، وإذا أراد أن يركع رفع يديه، وإذا رفع رأسه من الركوع رفع يديه، وحدث: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صنع هكذا
ترجمہ:حضرت ابوقلابہؒ سے روایت ہے کہ انہوں نے مالک بن حویرثؓ کو دیکھا کہ جب وہ نماز پڑھتے تو تکبیر کہتے وقت اپنے ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع کے ارادے سے جھکتے تو بھی ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ہاتھ اٹھاتے، اور انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔
صحیح مسلم( رقم الحدیث866) میں ہے:
عن نصر بن عاصم عن مالك بن الحويرث رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا كبر رفع يديه حتى يحاذي بهما اذنيه واذا ركع رفع يديه حتى يحاذي بهما اذنيه واذا رفع رأسه من الركوع فقال سمع الله لمن حمده فعل مثل ذلك.
ترجمہ:حضرت نصر بن عاصم، مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب تکبیر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھ اس طرح اٹھاتے کہ کانوں کے برابر ہو جاتے، اور جب رکوع کرتے تو بھی اپنے دونوں ہاتھ اسی طرح اٹھاتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو کہتے: “سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَه” (اللہ نے اس کی بات سنی جس نے اس کی حمد کی) اور اسی طرح ہاتھ اٹھاتے۔
سنن نسائی( رقم الحدیث 1085 )میں ہے:
عن نصر بن عاصم عن مالك بن الحويرث رضي الله عنه انه راى النبي صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته واذا ركع واذا رفع راسه من الركوع واذا سجد واذا رفع راسه من السجود حتى يحاذي بهما فروع اذنيه.
ترجمہ:نصر بن عاصم، مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ رکوع کرتے وقت، رکوع سے سر اٹھاتے وقت، سجدہ کرتے وقت اور سجدے سے سر اٹھاتے وقت اپنے دونوں ہاتھ اس طرح اٹھاتے کہ کانوں کے بالائی حصے کے برابر ہو جاتے۔
سنن ترمذی (1/305)میں ہے:
حدثنا هناد حدثنا وكيع عن سفيان عن عاصم بن كليب عن عبد الرحمن بن الأسود عن علقمة قال قال عبد الله بن مسعود : ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه و سلم ؟ فصلى فلم يرفع يديه إلا في أول مرة. قال وفي الباب عن البراء بن عازب
قال أبو عيسى حديث ابن مسعود حديث حسن وبه يقول غير واحد من أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم والتابعين وهو قول سفيان [ الثوري ] وأهل الكوفة
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: “کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھا کر نہ دکھاؤں؟”پھر انہوں نے نماز پڑھی اور پہلی بار (تکبیرِ تحریمہ کے وقت) کے سوا اپنے ہاتھ نہیں اٹھائے۔
ابو عیسیٰ (یعنی امام ترمذیؒ) نے فرمایا : حضرت ابن مسعودؓ کی حدیث حسن ہے، اور اسی پر صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ میں سے کئی اہلِ علم کا عمل ہے۔ یہی حضرت سفیان ثوریؒ اور اہلِ کوفہ کا بھی قول ہے۔”
رحمۃ اللہ الواسعہ (3/434) میں مفتی سعید صاحبؒ شاہ صاحب کی توجیہ کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
پہلی وجہ کے متعلق جواب:جب ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھنے سے پہلے فرمایا تھا: ألا اصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم تو اب آپ کی پڑھی ہوئی نماز حکما مرفوع ہو جاتی ہے اور حدیث مرفوع میں قیاس کا دخل نہیں ہو سکتا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی بات کی نسبت علم و مشاہدہ پر مبنی ہو سکتی ہے خیال پر مبنی نہیں ہو سکتی۔
دوسری وجہ کے متعلق جواب: رفع الیدین بے شک تحرم فعلی ہے جیسا کہ شاہ صاحب نے بھی تکبیر تحریمہ کے ساتھ رفع الیدین کی حکمت میں بیان کیا ہے اور پہلے یہ عمل ہر رفع و خفض کے ساتھ کیا جاتا تھا پھر حرکت ہونے کی جہت کا لحاظ کر کے رفتہ رفتہ یہ عمل موقوف کیا گیا جیسا اندیشہ افساد کی وجہ سے پہلے زیارت قبور سے منع کیا گیا تھا پھر جب عقیدہ توحید راسخ ہو گیا تو ایصال ثواب اور تذکیر بالموت کی جہت کا لحاظ کر کے اجازت دے دی گئی ایسے ہی رفع الیدین کا معاملہ ہے۔تمام ائمہ فی الجملہ نسخ کےقائل ہیں اب اختلاف صرف اس میں ہے کہ یہ نسخ باڈر (تکبیر تحریمہ) تک چلا گیا ہے یا بیچ میں رک گیا ہے۔
رہی یہ بات کہ ہم رفع یدین کیوں نہیں کرتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کتب احادیث میں رفع یدین اور ترک رفع یدین دونوں طرح کی احادیث موجود ہیں اس مسئلہ میں ہماری تحقیق یہ ہے کہ حضورﷺ نے شروع میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی رفع یدین کیا تھالیکن آخری عمر میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین ترک فرمادیاتھا ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ رفع یدین کرنے کی حدیث کے راوی حضرت مالک بن حویرث ؓ اورحضرت وائل بن حجر ؓ ہیں اور دونوں مسافر صحابی ہیں اس زمانے میں ان دونوں حضرات نے جیسے آپﷺ کو نماز پڑھتے دیکھاویسے آگے بیان کردیا اور تیسرے صحابی حضرت ا بن عمرؓ ہیں ، لیکن ابن عمرؓ کا اپنا عمل ترک رفع یدین کا ہے اس سے معلوم ہوا کہ آپﷺ نے آخر کار رفع یدین چھوڑدیا تھا اسی لئے حضرت ابن عمرؓ خود رفع یدین نہیں کرتے تھے،نیز حضرت ابن مسعودؓ، حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ (جنہوں نے آپ ﷺ کی نماز کو ابتدائی زمانے سے آخری زمانے تک سفر وحضر میں ہر موقع پر دیکھا تھا ان) کا عمل بھی تکبیر تحریمہ کے علاوہ ترک رفع یدین کا ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آخر کار آپﷺ نے رفع یدین چھوڑ دیا تھا ورنہ یہ بڑے بڑے حضرات رفع یدین کو کیوں چھوڑتے۔
مسند حميدی( رقم الحديث:614) میں ہے:
عن ابن عمررضي الله عنهما قال رأيت رسول الله ﷺ اذا افتتح الصلاة رفع يديه حذو منکبيه واذا اراد ان يرکع وبعد مايرفع رأسه من الرکو ع فلايرفع ولابين السجدتين
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺکو دیکھا کہ آپ جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اورجب رکوع کرتے اوررکوع سے سراٹھاتے تو ہاتھوں کو نہیں اٹھاتے تھے اورنہ ہی سجدوں کے درمیان ہاتھ اٹھاتے تھے۔
سنن النسائی (رقم الحديث:1058) میں ہے:
عن عبدالله رضي الله عنه انه قال ألاَ أصلّي بکم صلاة رسول الله صلی الله علیه وسلم قال: فصلی فلم یرفع یدیه إلا مرةً واحدةً”.
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ پڑھاؤں چنانچہ انہو ں نے نماز پڑھائی تو شروع نماز کے علاوہ کہیں رفع یدین نہیں کیا۔
صحیح مسلم (رقم الحدیث:968) میں ہے:
عن جابر بن سمرة قال: خرج علینا رسول الله صلی الله علیه وسلم فقال: مالي أراکم رافعی أیدیکم کأنها أذناب خیل شمس اسکنوا في الصلاة
ترجمہ:حضرت جابر بن سمرہ ؓ فرماتے ہیں (ہم نماز پڑھ رہے تھےاورنماز میں رفع یدین کررہے تھے کہ)آپ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اورفرمایا کیا ہوگیا کہ میں تمہیں نماز میں ایسے رفع یدین کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں جیسے بدکے ہوئے گھوڑے اپنی دمیں ہلاتے ہیں نماز میں سکون اختیار کرو۔
سنن ابو داؤد(رقم الحدیث: 750 ) میں ہے:
عن البراء رضی الله عنه ان رسول الله ﷺ كان إذا افتتح الصلاة رفع يديه إلى قريب من اذنيه ثم لا يعود”
حضرت براء ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع فرماتے تو اپنے کانوں تک ہاتھ اٹھاتے پھر دوبارہ نہ اٹھاتے۔
سنن دار قطنی (1/295)میں ہے:
حدثنا أبو عثمان سعيد بن محمد بن أحمد الحناط وعبد الوهاب بن عيسى بن أبي حية قالا نا إسحاق بن أبي إسرائيل نا محمد بن جابر عن حماد عن إبراهيم عن علقمة عن عبد الله قال : صليت مع النبي صلى الله عليه و سلم ومع أبي بكر ومع عمر رضي الله عنهما فلم يرفعوا أيديهم إلا عند التكبيرة الأولى في افتتاح الصلاة قال إسحاق به نأخذ في الصلاة كلها
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کے ساتھ، اور حضرت ابو بکرؓ اورحضرت عمرؓ کے ساتھ نماز پڑھی، تو وہ لوگ ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے سوائے پہلی تکبیر (تکبیرِ تحریمہ) کے وقت جب نماز شروع کرتے۔”
اسحاق (بن ابی اسرائیل) نے کہا: “ہم نماز کے تمام احکام میں اسی قول پر عمل کرتے ہیں۔”
السنن الکبری للبیہقی(113/2) میں ہے:
“عن علقمة عن عبد الله بن مسعود قال: صلیت خلف النبي صلی الله علیه وسلم، وأبي بکر وعمرفلم یرفعوا أیدیهم إلا عند افتتاح الصلاة.”
حضرت علقمہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:میں نے نبی کریم ﷺ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے پیچھے نماز پڑھی، تو انہوں نے اپنے ہاتھ صرف نماز کی ابتداء (تکبیرِ تحریمہ) کے وقت ہی اٹھائے تھے۔
مؤطا امام محمد (رقم الحديث :105) میں ہے:
عن عاصم بن كليب الجرمي عن ابيه قال: رأيت علي بن أبي طالب رفع يديه في التكبيره الاولى من الصلاة المكتوبة ولم يرفعهما فيما سوى ذلك.
ترجمہ:حضرت عاصم بن کلیب جُرَمیؒ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی بن ابی طالبؓ کو دیکھا کہ انہوں نے فرض نماز کی پہلی تکبیر (تکبیرِ تحریمہ) میں اپنے ہاتھ اُٹھائے، اور اس کے علاوہ (یعنی باقی تکبیروں میں) ہاتھ نہیں اُٹھائے۔
شرح معانی الآثار (رقم الحدیث224) میں ہے:
عن عقلمة عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلی الله علیه وسلم أنه کان یرفع یدیه في أوّل تکبیرة ثم لایعود
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ صرف شروع کی تکبیر میں دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے، پھر اس کے بعد اخیر نماز تک نہیں اٹھاتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved