- فتوی نمبر: 28-187
- تاریخ: 16 جنوری 2023
استفتاء
حضرت محمد بن عمرو بن عطاء رحمہ اللہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : میں نے حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کو دس صحابہ کی موجودگی میں یہ کہتے سنا ۔ ان دس حضرات میں سے ایک حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ ہیں ۔ ابوحمید رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کو تم سب سے زیادہ جانتا ہوں ۔ دیگر صحابہ نے کہا : ایسے کیوں کر ہو سکتا ہے ، جب کہ آپ ہم سے زیادہ اللہ کے رسول ﷺ کی پیروی کرنے والے نہیں ۔ ( ہم بھی تو ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں نبی ﷺ کی پوری پوری اتباع کرنے کی کوشش کرتے ہیں ) نہ تمہیں ہم سے پہلے نبی ﷺ کی ہم نشینی کا شرف حاصل ہوا ۔ ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا : جی ہاں ۔ ( اس کے باوجود بات یہی ہے ) ان حضرات نے کہا : تب بیان کیجیے۔ انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے تھے ، پھر اپنے دونوں ہاتھ اتنے بلند کرتے کہ کندھوں کے برابر اٹھا لیتے اور ( ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے تو ) آپ ﷺ کا ہر عضو اپنے اپنے مقام پر ٹھہر جاتا ( بلا ضرورت حرکت نہ کرتے ) ، پھر قراءت کرتے ، پھر اللہ اکبر کہتے اور اپنے ہاتھ بلند کرتے حتی کہ کندھوں کے برابر اٹھا لیتے ، پھر رکوع کرتے اور اپنے ہاتھ گھٹنوں پر مضبوطی سے رکھتے ( رکوع کے دوران میں ) نہ اپنا سر بہت زیادہ جھکا دیتے اور نہ بلند رکھتے (بلکہ) اعتدال سے رکوع کرتے ۔ پھر ( سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہ ) کہتے اور اپنے ہاتھ اٹھاتے حتی کہ انہیں کندھوں کے برابر بلند کر لیتے ، ( اور سیدھے کھڑے ہو جاتے ) حتی کہ ہر ہڈی اپنی جگہ ٹھہر جاتی ، پھر زمین کی طرف جھکتے اور (سجدے کے دوران میں ) اپنے ہاتھوں کو پہلوؤں سے جدا رکھتے ، پھر سر اٹھاتے اور اپنے بائیں پاؤں کو موڑ کر اس پر بیٹھ جاتے جب سجدہ کرتے تو پاؤں کی انگلیوں کو زمین پر لگاتے ، پھر سجدہ کرتے ، پھر اللہ اکبر کہہ کر اپنے بائیں پاؤں پر بیٹھ جاتے حتی کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر آ جاتی ، پھر کھڑے ہوتے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح ( تمام ارکان ادا ) کرتے ، پھر جب دو رکعتیں پڑھ کر ( تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ اتنے بلند کرتے کہ کندھوں کے برابر کر دیتے ، جس طرح نماز شروع کرتے وقت ( رفع یدین ) کیا تھا ۔ پھر باقی نماز بھی اسی طرح ادا کرتے حتی کہ جب وہ رکعت ہوتی جس میں سلام پھیرنا ہوتا تو ( تشہد میں بیٹھتے وقت ) ایک پاؤں کو ( بائیں پاؤں کو ) ایک طرف نکال دیتے اور تورک کے طریقے سے جسم کا بایاں حصہ زمین پر رکھ کر بیٹھتے ۔ حاضرین نے کہا : آپ نے سچ کہا ، اللہ کے رسول ﷺ اسی طرح نماز پڑھتے تھے ۔
اس حدیث کی رُوشنی میں نماز ادا کرنے کے طریقے کی وضاحت فرمادیں۔
وضاحت مطلوب ہے: سائل کو کس چیز کی وضاحت مطلوب ہے:
جواب وضاحت: (1)کیا رفع یدین کے ساتھ ہی نماز پڑھنا سنت طریقہ ہے (2) اور غیر مقلدین جس طریقے سے نماز ادا کرتے ہیں کیا وہ درست ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1.نہیں، بلکہ بغیر رفع یدین کے نماز پڑھنا بھی سنت ہے۔
2.درست ہے تاہم حنفیہ کی تحقیق میں سنت طریقہ وہ ہے جس کے مطابق حنفیہ نماز پڑھتے ہیں۔ باقی رہی سوال میں ذکر کردہ حدیث؟ تو یہ حدیث صحیح نہیں جس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:
1۔اس کی سند میں مذکور راوی عبد الحمید بن جعفر متکلم فیہ ہے ۔
2۔یہ حدیث منقطع ہے،محمد بن عمر وبن عطاء کا سماع حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سےثابت نہیں۔اور درمیان میں راوی مجہول ہے
3۔ روایت میں ذکر ہے کہ اس مجلس میں حضرت ابوقتادہ ؓبھی موجود تھے حالانکہ محمد بن عمرو کی ملاقات حضرت ابوقتادہ ؓسے ممکن ہی نہیں۔
4۔”فقالواجمیعا صدقت” روایت میں ذکرکردہ یہ الفاظ راوی ابوعاصم کا تفرد ہے،کسی اور نے یہ الفاظ ذکر نہیں کیے۔
جبکہ اس کے برعکس صحیح اور مستند روایات سے معلوم ہوتاہے کہ حضور ﷺ نےپہلی تکبیر کے علاوہ رفع یدین ترک فرمادیا تھا،چنانچہ جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود جو حضور ﷺ کے سفر وحضر کے خادم تھے ان سے احادیث کی متعدد کتب مثلا جامع ترمذی،سنن نسائی،سنن ابی داود وغیرہ میں بسند صحیح روایات مذکور ہیں ۔مثلا:
عن علقمة، قال: قال عبد الله بن مسعود: ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فصلى، فلم يرفع يديه إلا في أول مرة،وفي الباب عن البراء بن عازب. حديث ابن مسعود حديث حسن، وبه يقول غير واحد من أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، والتابعين، وهو قول سفيان الثوري، وأهل الكوفة ۔
حضرت علقمہ ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا "کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ پڑھ کر دکھاوں؟چنانچہ آپ نے نماز پڑھی اور صرف پہلی تکبیر کے وقت رفع یدین کیا۔
امام ترمذی ؒ یہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔اور صحابہ کرام اور تابعین میں سے بےشمار حضرات رفع یدین نہ کرنے کے قائل تھے۔اور اہل کوفہ اور سفیان ثوری ؒ بھی اس کے قائل تھے۔
مسند حمیدی (1/515) میں ہے:
626 – حدثنا الحميدي قال: ثنا الزهري، قال: أخبرني سالم بن عبد الله، عن أبيه، قال: «رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا افتتح الصلاة رفع يديه حذو منكبيه، وإذا أراد أن يركع، وبعد ما يرفع رأسه من الركوع فلا يرفع ولا بين السجدتين»
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ،جب آپ نے نماز شروع فرمائی تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھائے،اور جب رکوع کا ارادہ فرمایا اس وقت اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھایا دونوں جگہوں پر رفع یدین نہیں فرمایا،اور نہ ہی دو سجدوں کے درمیان رفع یدین کیا۔
شرح معانی الآثار (1/307) میں ہے:
حضرت مجاہد ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر کے پیچھے نماز پڑھی ،آپ نے نماز میں سوائے تکبیر اولی کے کسی جگہ رفع یدین نہیں کیا۔
اس حوالہ سے مزید احادیث دیکھنا چاہیں تو اس کتاب کا مطالعہ فرمائیں”حدیث اور اہل حدیث”مولف: مولانا انوار خورشید صاحب۔
شرح معاني الآثار (1/309) میں ہے:
«وأما حديث عبد الحميد بن جعفر ، فإنهم يضعفون عبد الحميد ، فلا يقيمون به حجة ، فكيف يحتجون به في مثل هذا. ومع ذلك فإن محمد بن عمرو بن عطاء لم يسمع ذلك الحديث من أبي حميد ، ولا ممن ذكر معه في ذلك الحديث بينهما رجل مجهول ، قد ذكر ذلك العطاف بن خالد عنه ، عن رجل ، وأنا ذاكر ذلك في باب الجلوس في الصلاة إن شاء الله تعالى. وحديث أبي عاصم عن عبد الحميد هذا ، ففيه فقالوا جميعا: صدقت فليس يقول ذلك أحد غير أبي عاصم»
شرح سنن ابی داود للعینی (3/ 319)میں ہے:
«وأجاب البيهقي في كتاب ” المعرفة ” فقال: أما تضعيفه لعبد الحميد بن جعفر فمردود، لأن يحيى بن معين وثقه في جميع الروايات عنه، وكذلك أحمد بن حنبل، واحتج به مسلم في”صحيحه "، وأما ما ذكر من انقطاعه فليس كذلك؟ فقد حكم البخاري في ” تاريخه ” بأنه سمع أبا حميد، وأبا قتادة، وابن عباس. وقوله: إن أبا قتادة قتل مع علي رواية شاذة رواها الشعبي، والصحيح الذي أجمع عليه أهل التاريخ أنه بقي إلى سنة أربع وخمسين، ونقله عن الترمذي والواقدي والليث، وابن منده، ثم قال: وإنما اعتمد الشافعي في حديث أبي حميد برواية إسحاق ابن عبد الله، عن عباس بن سهل، عن أبي حميد ومن سماه من الصحابة،وكده برواية فليح بن سليمان، عن عباس بن سهل، عنهم، فالإعراض عن هذا والاشتغال بغيره ليس من شأن من يريد متابعة السُنَة ” . والجواب عما قاله البيهقي: أما قوله: ” أما تضعيفه لعبد الحميد بن جعفر فمردود ” مردود، لأن مثل يحيى بن سعيد طعن في حديثه، وهو إمام الناس في هذا الباب، وذكره ابن الجوزي في كتاب ” الضعفاء والمتروكين ” فقال: كان يحيى بن سعيد القطان يضعفه، وكان الثوري يحمل عليه ويضعفه. وفي ” الكمال ": وقال يحيى بن سعيد: كان سفيان يضعفه من أجل القدر. على أن الطحاوي نسب تضعيفه إليهم. وأما قوله: ” وأما ما ذكر من انقطاعه فليس كذلك؛ فقد حكم البخاري في ” تاريخه ” بأنه سمع أبا حميد، وأبا قتادة، وابن عباس، فمجرد تشنيع وتعصب، لأن الطحاوي ما قال هذا من عنده، بل إنما حكم بأن محمد بن عمرو بن عطاء لم يسمع من أبي حميد، ولم ير أبا قتادة، لعدم احتمال سِنه ذلك، لأنه قتل مع علي، وصلى عليه علي، وهو قول مثل الشعبي الإمام في هذا الفن، وكذا قال الهيثم بن عدي، وقال ابن عبد البر: هو الصحيح. وفي ” الكمال ": قيل: توفي سنة ثمان وثلاثين، فكيف يقول البيهقي: هذه رواية شاذة؟ فيجعل رواية البخاري في ” تاريخه ” صحيحة، ويجعل كلام مثل هؤلاء الأجلة شاذا؟ على أن ابن الحزم قال: ولعله وهم فيه، يعني: عبد الحميد، وأيضا قد اضطرب سند هذا الحديث ومتنه، فرواه العطاف بن خالد فأدخل بين محمد بن عمرو وبين النفر من الصحابة رجلاً مجهولاً، والعطاف وثَّقه ابن معين، وفي رواية قال: صالح. وفي رواية: ليس به بأس. وقال أحمد: من أهل مكة، ثقة صحيح الحديث. ويدل على أن بينهما واسطة، أن أبا حاتم ابن حبان أخرج هذا الحديث في ” صحيحه ” من طريق عيسى بن عبد الله، عن محمد بن عمرو، عن عباس بن سهل الساعدي، أنه كان في مجلس فيه أبوه، وأبو هريرة، وأبو أسيد، وأبو حميد الساعدي … الحديث، وذكر المزي، ومحمد بن طاهر المقدسي في ” أطرافهما ” أن أبا داود أخرجه من هذا الطريق، وأخرجه البيهقي في ” باب السجود على اليدين والركبتين ” من طريق الحسن بن الحر، حدَثني عيسى بن عبد الله بن مالك، عن محمد بن عمرو بن عطاء، عن مالك، عن عياش أو عباس بن سهل … الحديث، ثم قال: وروى عتبة بن أبي حكيم، عن عبد الله بن عيسى، عن العباس ابن سهل، عن أبي حميد، لم يذكر محمداً في إسناده. وقال البيهقي في ” باب القعود على الرجل اليسرى بين السجدتين ": وقد قيل في إسناده عن عيسى بن عبد الله، سمعه عباس بن سهل، أنه خص أبا حميد، ثم في رواية عبد الحميد أيضاً أنه رفع عند القيام من الركعتين، وقد تقدم أنه يلزم الشافعي، وفيها أيضاً التورك في الجلسة الثانية، وفي رواية عباس بن سهل التي ذكرها البيهقي بعد هذه الرواية خلاد هذه ولفظها: ” حتى فرغ، ثم جلس فافترش رجله اليسرى، وأقبل بصدر اليمنى على قبْلته "، وظهر بهذا أن الحديث مضطرب الإسناد والمتن، وظهر أن قوله: "والاشتغال بغيره ليس من شأن من يريد متابعة السنة ” كلام واقع عليه
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved