• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

رہبانیت اورصوفیت میں فرق

استفتاء

رہبانیت اورصوفیت کیا ہے ؟دونوں کی وضاحت کریں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

رہبانیت اور صوفیت  میں یہ فرق ہے کہ رہبانیت میں مباح چیزوں کو چھوڑا جاتا ہے عبادت اور ثواب سمجھ کر، جبکہ صوفیت میں اگر مباح چیزوں کو چھوڑا جاتا ہے تو وہ علاج کا ایک ذریعہ سمجھ کر چھوڑا جاتا ہے عبادت یا ثواب سمجھ کر نہیں۔

(’’آسان ترجمہ قرآن ‘‘3/1684)از مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی)شریعت کی نظر میں ’’رہبانیت ‘‘ناجائز ہے کیونکہ ایک تو آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے ’’لا رهبانية في الإسلام ‘‘یعنی اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔دوسرا’’رہبانیت‘‘ میں مباح وحلال چیزوں کو چھوڑا جاتا ہے عبادت  وثواب سمجھ کر۔ لیکن اگر کوئی شخص مباح وحلال چیزیں چھوڑتا ہے محض اپنی جسمانی یا روحانی بیماریوں کے علاج کےلیے ،تو یہ جائز ہے ۔ اس لیے بعض صوفیاء وشیوخ جواپنے مریدوں کی روحانی بیماریوں کو دورکرنے کےلیے مباح کاموں کو چھوڑنے کا کہتے ہیں تو اس میں ازروئے شریعت کوئی حرج نہیں۔الجامع لأحكام القرآن (للقرطبي المتوفى : 671 هـ) (18/ 87) {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ} قال مقاتل : نزلت في عثمان بن مظعون ؛ وذلك أنه قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم : لو أذنت لي فطلقت خولة ، وترهبت واختصيت وحرمت اللحم ، ولا أنام بليل أبدا ، ولا أفطر بنهار أبدا! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : "إن من سنتي النكاح ولا رهبانية في الإسلام إنما رهبانية أمتي الجهاد في سبيل الله وخصاء أمتي الصوم ولا تحرموا طيبات ما أحل الله لكم. ومن سنتي أنام وأقوم وأفطر وأصوم فمن رغب عن سنتي فليس منى” . فقال عثمان : والله لوددت يا نبي الله أي التجارات أحب إلى الله فأتجر فيها ؛ فنزلت.تفسير روح البيان (9/ 313)روي  أن نفراً من الصحابة رضي الله عنهم أخذهم الخوف والخشية حتى أراد بعضهم أن يعتزل عن النساء وبعضهم الإقامة في رؤوس الجبال وبعضهم ترك الأكل والشرب وبعضهم غير ذلك فنهاهم عليه السلام عن ذلك كله وقال : لا رهبانية في الإسلام وقال رهبانية أمتي في المسجد يعني المتعبدون من أمتي لا يأخذون مأخذ النصارى بل يعتكفون في المساجد دون رؤوس الجبال وقال في نفي صوم الوصال : إني لست كهيئتكم إني أبيت لي مطعم يطعمني وساق يسقيني.معارف القرآن از مفتی شفیعؓ(3/220)میں ہے:تیسری قسم جس میں اعتقاد اور قول سے کسی حلال کو حرام نہ کیا ہو، بلکہ عمل میں ایسا معاملہ کرے جیسا حرام کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ دائمی طور پر اس کے چھوڑنے کا التزام کرے اس کا حکم یہ ہے کہ اگر حلال کو چھوڑنا ثواب سمجھتا ہے تو یہ بدعت اور رہبانیت ہے، جس کا گناہ عظیم ہونا قرآن و سنت میں منصوص ہے، اس کے خلاف کرنا واجب اور ایسی پابندی پر قائم رہنا گناہ ہے، ہاں اگر ایسی پابندی بہ نیت ثواب نہ ہو بلکہ کسی دوسری وجہ سے ہو مثلاً کسی جسمانی یا روحانی بیماری کے سبب سے کسی خاص چیز کو دائمی طور پر چھوڑ دے تو اس میں کوئی گناہ نہیں، بعض صوفیائے کرام اور بزرگوں سے حلال چیزوں کے چھوڑنے کی جو روایات منقول ہیں وہ سب اسی قسم میں داخل ہیں کہ انہوں نے اپنے نفس کے لئے ان چیزوں کو مضر سمجھا، یا کسی بزرگ نے مضر بتلایا، اس لئے بطور علاج چھوڑ دیا، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved