- فتوی نمبر: 33-302
- تاریخ: 07 جولائی 2025
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات > تحقیقات حدیث
استفتاء
دعائے حضرت حسنؓ
حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے لیے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی جانب سے سالانہ آمدنی ایک لاکھ روپے مقرر تھی ایک سال امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کی آمدنی روک لی جس کی وجہ سے وہ سخت مالی پریشانی میں مبتلا ہو گئے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے قلم اور روشنائی منگوائی تاکہ میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خط لکھ کر یاد دہانی کرا دوں، پھر میں نے یہ ارادہ ترک کر دیا اس کے بعد مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حسن تم کیسے ہو ؟ میں نے عرض کیا میرے پیارے نانا جان میں خیریت سے ہوں ساتھ ہی میں نے آمدنی کے ملنے پرتاخیر ہونے کی شکایت کر دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے دوات منگوائی تھی تاکہ اپنی ہی جیسی کمزور مخلوق کو خط لکھ کر یاد دہانی کراؤ ، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اگرچہ میں نے ایسا ہی کیا ہے لیکن میں اس کے علاوہ کیا کر سکتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم یہ دعا پڑھا کرو:
اللهم اقذف فی قلبی رجاءک واقطع رجائي عمن سواک حتی لا أرجو أحدا غیرک اللهم وماضعفت عنه قوتی وقصر عنه عملی ولم تنتهي اليه رغبتي ولم تبلغه مسئلتي ولم یجر علی لسانی مما أعطیت أحدا من الأولین والآخرین من الیقین فخصنی به یارب العالمین.
ترجمہ اے اللہ آپ میرے دل میں صرف اپنی ذات ہی سے امید پیدا کر دیجئے اے اللہ آپ میرے دل میں صرف اپنی ذات ہی سے امید پیدا کر دیجئے اور اپنی ذات کے علاوہ باقی سب سے میری امیدوں کو اس طرح ختم کر دیجئے کہ آپ کے علاوہ کسی سے امید نہ رکھوں یا رب العالمین مجھے وہ یقین خاص طور سے عطا فرما دیجئے جو آپ نے اگلے اور پچھلے لوگوں میں کسی کو عطا فرمایا ہو کہ جس کو حاصل کرنا میری طاقت سے باہر ہو اور میں اپنے عمل سے بھی اسے حاصل نہ کر سکتا ہوں اور میری دلی چاہت کی بھی وہاں تک رسائی نہ ہوتی ہو اور میں اسے مانگ بھی نہ سکا ہو ں۔
حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک ہفتہ ہی اس دعا کو الحاح وزاری سے پڑھا تھا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے 15 لاکھ روپے بھیج دیے تو میں نے کہا تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جو اپنی یاد کرنے والوں کو نہیں بھولتی پھر مجھے دوبارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی تو آپ نے فرمایا حسن تم کیسے ہو میں نے عرض کیا خیریت سے ہوں اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے رقم بھیجنے کا ذکر بھی سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے میرے بیٹے اللہ تعالی ایسا ہی معاملہ فرماتے ہیں اس شخص کے ساتھ جو اللہ تعالی سے امید رکھے اور مخلوق سے نا امیدی رکھی۔
کیا یہ روایت ثابت ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ روایت ثابت ہے اور متعدد مؤرخین نے اسے ذکر کیا ہے۔
تاریخ دمشق لابن عساکر (13/167) میں ہے:
أنبأنا بها أبو محمد عبد الجبار بن محمد وحدثنا أبو السحن علي بن سليمان بن احمد عنه أنبأنا أبو بكر احمد بن الحسين البهيقي أنا أبو عبد الله الحافظ اخبرني أبو عبد الله الحسين بن العباس الشهرزوري ببغداد نا أبو بكر احمد بن الفرج نا احمد بن عبيد نا أبو المنذر هشام بن محمد عن أبيه قال: اضاق (2) الحسن بن علي وكان عطاؤه في كل سنة مائة ألف فحبسها عنه معاوية في إحدى السنين فأضاق إضاقة شديدة قال فدعوت بدواة لاكتب إلى معاوية لاذكره نفسي ثم امسكت فرأيت رسول الله (صلى الله عليه وسلم) في المنام فقال كيف أنت يا حسن فقلت بخير يا ابة وشكوت إليه تأخر المال عني فقال ادعوت بدواة لتكتب إلى مخلوق مثلك تذكره ذلك قلت نعم يا رسول الله فكيف اصنع قال قل اللهم اقذف في قلبي رجاك واقطع رجائي عن من سواك حتى لا ارجوا أحدا غيرك اللهم وما ضعفت عنه قوتي وقصر عنه عملي ولم تنته إليه رغبتي ولم تبلغه مسألتي ولم يجر على لساني مما اعطيت أحدا من الأولين والآخرين من اليقين فخصني به يا رب العالمين قال فوالله ما ألححت به اسبوعا حتى بعث الي معاوية ألف بألف وخمس مائة ألف فقلت الحمد لله الذي لا ينسى من ذكره ولا يخيب من دعاه فرأيت النبي (صلى الله عليه وسلم) في المنام فقال يا حسن كيف أنت فقلت بخير يا رسول الله وحدثته حديثي فقال يا بني هكذا من رجا الخالق ولم يرج المخلوق
البدایہ والنہایہ (11/194) میں ہے:
ولما نزل لمعاوية عن الخلافة من ورعه صيانة لدماء المسلمين، كان له على معاوية في كل عام جائزة، وكان يفد إليه، فربما أجازه بأربعمائة ألف درهم، وراتبه في كل سنة مائة ألف، فانقطع سنة عن الذهاب، وجاء وقت الجائزة، فاحتاج الحسن إليها – وكان من أكرم الناس – فأراد أن يكتب إلى معاوية ليبعث بها إليه، فلما نام تلك الليلة رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم في المنام، فقال له: ” يا بني، أتكتب إلى مخلوق بحاجتك؟ ! ” وعلمه دعاء يدعو به، فترك الحسن ما كان هم به من الكتابة، فذكره معاوية وافتقده، وقال: ابعثوا إليه بمائتي ألف، فلعل له ضرورة في تركه القدوم علينا. فحملت إليه من غير سؤال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved