- فتوی نمبر: 10-246
- تاریخ: 06 نومبر 2017
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام کہ ایک عورت نے نکاح کیا اور اس کے بعد خلوت صحیحہ ہوئی، رخصتی نہیں ہوئی، اس عورت کو طلاق ہوئی۔ اب وہ عورت دوبارہ اسی شخص سے نکاح کر سکتی ہے یا حلالے کے بعد اس کے پاس جا سکتی ہے؟
وضاحت مطلوب ہے:
1۔ خلوتِ صحیحہ ہونے کی تفصیل لکھیں۔
2۔ طلاق میں کیا الفاظ استعمال کیے اور کیسے کیے؟
جواب وضاحت:
1۔ التقائے ختانین بھی ہوا، انزال بھی ہوا۔
2۔ الفاظ یہ تھے: طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے۔ اس سے مراد وہ عورت تھی۔
وضاحت مطلوب ہے:
التقائے ختانین سے کیا مراد ہے؟ بقدر حشفہ دخول مراد ہے یا دو شرمگاہوں کا صرف آپس میں ملنا مراد ہے؟
جواب وضاحت:
حشفہ داخل نہیں ہوا، باہر ہی سے انزال ہوا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں چونکہ خلوت صحیحہ ہو چکی ہے اس لیے تینوں طلاقیں ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے نکاح ختم ہو گیا ہے اور بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔
چنانچہ فتاویٰ شامی (248/4 طبع: دار المعرفۃ)میں ہے:
والحاصل أنه إذا خلا بها خلوة صحيحة ثم طلقها طلقة واحدة فلا شبهة في وقوعها ، فإذا طلقها في العدة طلقة أخرى فمقتضى كونها مطلقة قبل الدخول أن لا تقع عليها الثانية ، لكن لما اختلفت الأحكام في الخلوة في أنها تارة تكون كالوطء وتارة لا تكون جعلناها كالوطء في هذا فقلنا بوقوع الثانية احتياطا لوجودها في العدة ، والمطلقة قبل الدخول لا يلحقها طلاق آخر إذا لم تكن معتدة بخلاف هذه .
والظاهر أن وجه كون الطلاق الثاني بائنا هو الاحتياط أيضاً، ولم يتعرضوا للطلاق الأول. وأفاد الرحمتي أنه بائن أيضاً لأن الطلاق قبل الدخول غير موجب للعدة لأن العدة إنما وجبت لجعلنا الخلوة كالوطء احتياطاً، فإن الظاهر وجود الوطء في الخلوة الصحيحة….. فقط و الله تعالیٰ أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved