• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ساس کا بہو پر تشدد کی وجہ سے بیٹے کا اپنی والدہ سے علیحدہ ہونا

استفتاء

محترم جناب مفتی صاحب میری والدہ کی عمر اس وقت 72سال ہے جوانی میں وہ بہت کرپٹ عورت رہی ہے ۔میرے والد کے نکاح میں ہونے کے باوجود اس کے غیرمردوں کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے اس نے اپنی بیٹیوں کو بھی کھلی  آزادی دے رکھی تھی ۔ میری والدہ جہاں بیٹی کا رشتہ طے کرتی تھی وہاں اپنے داماد کے ساتھ بھی ناجائز تعلقات بنانے کی کوشش کرتی جس کی وجہ سے میری دوبڑی بہنوں کو طلاق بھی ہو چکی ہے ۔ان میں سے ایک بہن نے پھر اپنے شوہر سے طلاق لے کر تیسری شادی کر لی ہے جب کہ اس کے بچے بھی اب جوان ہو چکے ہیں۔1994میں میری بہن اور والدہ کے ایک ہی مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات بنے جب ہمیں اس بات کا علم ہوا تو ہمارا اس  آدمی کے ساتھ جھگڑا ہوا اور اسی جھگڑے میں میرے ہاتھوں فائر لگنے سے وہ  آدمی زخمی ہو گیا ۔اس واقعے کے بعد میرے والد نے ان دونوں ماں بیٹی کو گھر سے نکال دیا اور اپنی بیوی کو طلاق دے دی ،لیکن یہ طلاق زبانی تھی تحریری نہیں ،کچھ عرصہ گزرنے کے بعد رشتے داروںنے ان کی صلح کروادی والد صاحب نے والدہ کوگھر میں رکھ تو لیا لیکن ان کے  آپس میں تعلقات بالکل نہیں تھے گو کہ ایک پورشن میں والدصاحب رہتے اور ایک میں والدہ ۔میری شادی 2001میں ہوئی ۔میری بیوی میری ماموں زاد تھی ،میری بیوی کو بھی میری والدہ نے غلط راستے پر ڈال دیا ۔2004میں میرے والد کا انتقال ہو گیا تو گھر کا سارا کنٹرول میری والدہ کے ہاتھ میں  آگیا ۔اس کے بعد میری والدہ اور میری بیوی کھل کر عیاشی کرتی رہیں ۔مجھے اپنی بیوی کے کردار پر شک ہوا تو میں نے پوری طرح تحقیق کرنے کے بعد اپنی بیوی کو طلاق دے دی ۔طلاق دینے سے پہلے ہی میری بہن اور ماں نے میری بیوی کو اسی لڑکے کے ساتھ گھر سے بھگادیا جس کے ساتھ اس کے ناجائز مراسم تھے ۔طلاق دینے کے بعدبچے میںنے اپنے پاس رکھ لیے ۔بچوں کی عمر یں اس وقت 4سال ،3سال اور 1سال تھیں ۔مجھے میرے دوست احباب نے بہت کہا کہ بچے واپس اسی عورت کو دے دو لیکن میں نے صرف اسی بنا پر بچے اس عورت کو نہیں دیئے کہ کہیں وہ بچوں کو بھی غلط راستے پر نہ ڈال دے پھر میں نے 2008میں دوسری شادی کی۔وہ لڑکی نہایت نیک اور شریف تھی ۔میری والدہ کو وہ لڑکی کسی صورت قبول نہیں تھی اور  آئے دن گھر میں جھگڑا رہتاتھا اسی دوران میں 4ماہ کے لیے تبلیغ پر چلا گیا تو میری غیر موجودگی میں والدہ نے میری بیوی کو تشدد کا نشانہ بنا کر گھر سے نکال دیا ۔جب میں گھر واپس  آیا تو میری بیوی گھر واپس  آ گئی لیکن والدہ کو اسی کا آنا پسند نہ آیا تو والدہ نے رشتہ داروں کو اکٹھا کر کے اس لڑکی پر الزام لگایا کہ اس نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا ہے میں اس کو اسی گھر میں نہیں رہنے دوں گی ،یہ کہہ کر میری والدہ نے میرے اور رشتے داروں کے سامنے میری بیوی کوتھپڑمار دیا ۔اس کے بعد میری بیوی گھر سے چلی گئی اور اس نے کورٹ سے خلع لے لیا ۔میرے بچے اب بڑے ہو چکے ہیں ،بیٹا 15سال ،بیٹی 12سال ۔ اب میری والدہ میرے بچوں کو بگاڑرہی ہیں ،ان بچوں کو میرے خلاف بھڑکا رہی ہیں ۔میرے بچے مدرسوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔میری والدہ نے میرے علم میں لائے بغیر میرے بیٹے کو فون لے کر دیا ،میں نے بیٹے کو رنگے ہاتھوں موبائل پر فلمیں دیکھتے ہوئے پکڑا تو اس دوران گھر میں کافی جھگڑا ہوا اور میں نے ماں کو کافی برا بھلا کہا ۔میری والدہ نے محلے داروں کو میرے خلاف بھڑکا یا کہ یہ مجھے گالیاں نکالتا ہے اوربچوں پر ظلم کرہا ہے ۔گھر میں نہ T.Vلگا کردیتا ہے اور نہ بچوں کو موبائل لے کر دیتا ہے وغیرہ ۔۔لوگ اسی کی بات کا یقین کرلیتے ہیں کیونکہ یہ جب رو رو کر لوگوں کو بتاتی ہیں تو لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ واقعی یہ عورت بہت مظلوم ہے جبکہ ہمیں پتہ ہے کہ اس عورت نے شروع سے لے کر آج تک اسی طرح مکروفریب سے کام لیا ۔اور اسی مکاری اور جھوٹ کی وجہ سے یہ  آج تک کامیاب ہوتی چلی  آ رہی ہیں ۔اس عورت کی وجہ سے میں نے کافی مکان بدلے ہیں کیونکہ یہ جہاں بھی رہتی رہیں اس نے ہماری عزت کی دھجیاں ہی اڑائی ہیں ۔میں جہاں بھی رہا وہاں اس نے میری دشمنی ڈلوائی ۔دوسال پہلے اس نے مجھے زہر بھی دیا لیکن میرے اللہ نے مجھے نئی زندگی دی ۔اکثر لوگ کہتے کہ تیرے ساتھ اتنا کچھ ہونے کے باوجود تو زندہ کیسے ہے اوریہ واقعی میرے لیے بھی حیران کن ہے لیکن جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے ۔میرا اپنے اللہ پر پورا یقین ہے کہ وہ حق اور سچ کا ساتھ ضرور دیتا ہے اور اسی بنا پر میرا اللہ مجھے اس عورت کے شر سے بچاتا رہا ہے ۔جب تک میرے اوپر ظلم ہوتا رہا میں برداشت کرتا رہا صرف اس وجہ سے کہ اللہ پاک نے ماں کا جو مقام رکھا ہے مجھ سے اس میں کوئی کوتاہی نہ ہو جائے ۔اب جبکہ یہ میرے بچوں کو بھی بگاڑ رہی ہیں تو مجھے اب مجبورا یہ قدم اٹھانا پڑرہا ہے کہ میں اس کے خلاف فتوی لوں اپنی  آئندہ انے والی نسلوں کو اس کے شر سے بچانے کے لیے ۔اب اگر میں مدرسوں میں بچوں کو رہائشی کروانے کا کہتا ہوں تو یہ محلے والوں کو میرے خلاف بھڑکا کر بچوں کو رہائشی کروانے نہیں دیتی ۔

برائے مہربانی میرے لیے کوئی ایسا راستہ تجویز کیا جائے کہ جس سے میں اور میرے بچے اسی عورت کے شر سے بچ جائیں۔ میں اللہ تعالی کو حاضروناظر جان کر یہ حلفیہ اقرار کرتا ہوں کہ میں نے جو بھی تحریر کی ہے وہ حق اورسچ پر مبنی ہے ،اس میں کسی قسم کا جھوٹ یا مکروہ فریب شامل نہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اپنی والدہ کے جو حالات سائل نے ذکر کیے ہیں وہ اگر واقعۃً درست ہیں تو ایسی حالت میں ان کا اکٹھے رہنا درست نہیں ۔ سائل کو چاہیے کہ وہ ایسی حالت میں اپنی رہائش کا کوئی الگ نظم بنائے اور والدہ کے لیے دعاکرتا رہے

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved