- فتوی نمبر: 30-94
- تاریخ: 03 اکتوبر 2023
- عنوانات: اہم سوالات > عقائد و نظریات > گمراہ افراد، نظریات اور جدید فتنے
استفتاء
ایک مسئلہ جس کا حل سمجھ نہیں آ رہا آپ سے دریافت کرنا چاہتی ہوں ، ایک اسلامک سپیکر ہیں ساحل عدیم ان کی کافی ویڈیوز ہیں یوٹیوب پہ، کافی اچھی باتیں کرتے ہیں اور دین کی باتیں بتاتے ہیں ،یونیورسٹیز میں بھی جا کر لیکچرز دیتے ہیں ، وہ ینگ جنریشن کو زیادہ فوکس کرتے ہیں اور دین کو اور سائنس کو آپس میں لنک کر کے بتاتے ہیں۔
مجھے ان سے دو مسائل ہیں :
1) پہلا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے واٹس ایپ گروپ بنا ئے ہوئے ہیں بہت سارے ، جن کا نام ہے اسلامک میسجنگ سسٹم،یہ گروپس لڑکے اور لڑکیوں کے اکٹھے ہیں ، ان گروپس میں لوگ موجودہ مسائل پر بحث کرتے ہیں کچھ کچھ دنوں بعد زوم پر سیشنز بھی ہوتے ہیں ، تا کہ ان مسائل پر کام کیا جائے یا کوئی فائدہ مند ویڈیو بنائی جائے ۔
تو کیا اس طرح لڑکے اور لڑکیوں کا گروپ بنانا ٹھیک ہے ؟جبکہ مجھے لگتا ہے کہ جب گروپس بناتے ہیں تو سب کے پاس سب کے نمبر چلے جاتے ہیں اور اس طرح فتنے کا ڈر ہے ۔
2 ) دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ساحل عدیم خود بھی مختلف شوز میں جا کر بات کرتے ہیں ، ٹی وی پر جو شوز چل رہے ہوتے ہیں جن کو خواتین ہوسٹ کر رہی ہوتی ہیں( یعنی وہاں میزبانی کے فرائض ایک عورت سر انجام دے رہی ہوتی ہے ) ان میں بھی جاتے ہیں ،تو کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ دین کی باتیں کرتے ہیں اور نا محرم لڑکیوں کو انٹر ویو دیتے ہیں تو آپ کو دین نظرنہیں آتا ؟ تو انہوں نے کہا کہ تو پھر ان تک دین کون پہنچائے گا ؟ ہم نے خاص طور پر ان کو دین پہنچانا ہے جو دین میں کمزور ہیں اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟ اس طرح تو پردے کا کانسیپٹ کہیں دور جاتا محسوس ہوتا ہے ،یا پھریہ سب آج کے دور میں ضروری ہے ؟ کیا ہمیں صحابہ کے دور سے کسی ایسے حلقے کی مثال ملتی ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1) ہماری تحقیق میں لڑکے اور لڑکیوں کا گروپ بنانا جائز نہیں کیونکہ اس میں سب کے نمبر سب کے پاس چلے جاتے ہیں جس میں فتنے کا قوی اندیشہ ہے ۔
2) غیر محرم سے پردہ ضروری ہے اگر غیر محرم عورت پردہ نہ کرے تو مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی نظروں کو جھکا لے نیز نظروں کی حفاظت اور پردے کا خیال رکھتے ہوئے بھی نا محرم عورتوں تک دین پہنچایا جا سکتا ہے لہذا بے پردگی کے لئے یہ دلیل درست نہیں کہ ان تک دین کون پہنچائے گا ؟
نوٹ : ہماری معلومات کی حد تک ساحل عدیم ایسے شخص نہیں جن سے دینی معلومات حاصل کی جا ئیں کیونکہ یہ دین کے بارے میں جاہل ہیں اور ان کی جہالت کی چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں ۔
پہلی مثال :
گدھے کی حلت اور شرعی احکام کے درجات سے ناواقفیت :
ساحل صاحب اپنی ایک ویڈیو میں کہتے ہیں :
"اس پر کوئی نہیں بات کر رہا ہے کہ گدھا حرام ہے یا حلال ہے ؟ نہیں ،گدھا حلال ہے ۔گھوڑا گدھا حلال جانور ہیں اسلام میں ، جتنا مرضی پاکستانی کہہ لیں او جی مکروہات میں آتا ہے اس سے کہو حرام ہے یا حلال ہے صاف صاف بات کیا کر بھائی ؟ یہ کیا گیمیں ڈالتا ہے ہمارے ساتھ ؟۔۔۔۔۔۔تم پاکستانی ہو،۔۔ اس لیے امام ابو حنیفہ کو نبی نہ مانیں تمام ائمہ کرام نے گدھے کو حلال ہی قرار دیا ہے ۔”
مذکورہ بالا اقتباس میں ساحل صاحب نے تین بڑی بنیادی غلطیاں کی ہیں ؛
1- پہلی غلطی یہ کہ انہوں نے گدھے کو حلال کہا ہے جو احادیث کے خلاف ہے ۔
بخاری شریف (5/2103) میں ہے:
حدثنا صدقة: أخبرنا عبدة، عن عبيد الله، عن سالم ونافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما: نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن لحوم الحمر الأهلية يوم خيبر۔
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے غزوہ خیبر کے موقع پر گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ۔
ابو داود (3/419) میں ہے :
ألا لا تحل أموال المعاهدين إلا بحقها، وحرام عليكم حمر الأهلية، وخيلها، وبغالها، وكل ذي ناب من السباع، وكل ذي مخلب من الطير
حضرت خالد بن ولید ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :خوب غور سے سنو ! تمھارے لیے ذمی کا مال لینا جائز نہیں سوائے اس حق ( جزیہ یا خراج ) کے جو اس کے مال سے متعلق ہو چکا ہو،اور تم پر گدھے کا گوشت ، گھوڑے کا گوشت ، خچر کا گوشت اور جانوروں میں سے کُچلی والے جانوروں کا گوشت اور پرندوں میں سے پنچے سے شکار کرنے والے پرندوں کا گوشت حرام ہے ۔
2- ساحل صاحب نے جو کہا کہ باقی سب آئمہ کے نزدیک گدھے کا گوشت حلال ہے یہ بھی خلاف حقیقت ہے ۔تمام آئمہ کے نزدیک گدھے کا گوشت حرام ہے جس کا ثبوت درج ذیل ہے ۔
فقہ شافعی میں گدھے کے گوشت کی حرمت :
الام (2/275) میں ہے :
(قال الشافعي): في هذا الحديث دلالتان. إحداهما تحريم أكل لحوم الحمر الأهلية۔۔۔۔۔۔
امام شافعیؒ فرماتےہیں کہ اس حدیث سے دو باتیں پتہ چلیں ایک یہ کہ گدھے کا گوشت کھانا حرام ہے۔۔۔۔۔۔ الخ
فقہ حنبلی میں حرمت
شرح الزرکشی علی مختصر الخرقی ( 6/673) میں ہے :
قال ابن عبد البر: روى عن النبي – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – تحريم الحمر الأهلية: علي، وعبد الله بن عمر، وعبد الله بن عمرو، وجابر، والبراء، وعبد الله بن أبي أوفى، وأنس، وزاهر الأسلمي – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ – بأسانيد صحاح حسان. قال: ولا خلاف بين علماء المسلمين اليوم في تحريمها
علامہ ابن عبد البر ؒ کہتے ہیں کہ نبیﷺ سے گدھے کے گوشت کی حرمت حضرت علی ، حضرت عبد اللہ بن عمر ، عبد اللہ بن عمرو ، حضرت جابر ، حضرت براء اور حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی ، حضرت انس اور زاہر اسلمی ( رضی اللہ عنھم ) نے صحیح سند والی احادیث سے نقل کی ہے ۔ اور فرمایا کہ گدھے کے گوشت کی حرمت میں مسلمانوں کے علماء کا کوئی اختلاف نہیں ۔
فقہ مالکی میں حرمت :
الکافی فی فقہ اہل المدینہ (1/436) میں ہے :
لا يحل أكل الحمار الأهلي …………. وقد نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أكل لحوم الحمر الأهلية۔
گدھے کا گوشت کھانا حلال نہیں ہے ——— رسول اللہ ﷺ نے گدھے کے گوشت کو کھانے سے منع کیا ہے۔
3- ساحل صاحب کی تیسری غلطی شرعی احکام کو صرف حلال و حرام میں منحصر سمجھنا ہے حالانکہ حلال و حرام کے درمیان بھی شرعی احکام کے درجات ہیں جیسے واجب ، سنت ، مستحب ، مکروہ ، مباح وغیرہ ۔اپنے ناقص فہم کی بناء پر ان درمیانی نوعیت کے احکامات کو ” گیمیں ڈالنا ” کہنا بتلارہاہے کہ ساحل صاحب دین کا کیسافہم رکھتے ہیں ۔
دوسری مثال :
اہلِ سنت کثر اللہ سوادھم کے متعلق بے بنیاد غلط بیانی
ایک ویڈیو میں کہتے ہیں ؛
"اہل بیت کے ساتھ جو کچھ ہوا ہم سب کو پتہ ہے کوئی بھی ذی شعور مسلمان نہیں ہے جس کو پتہ نہ ہو ، کوئی تُکا نہیں لگا ، حضرت علیؓ بن ابی طالب ، حضرت حسن ؓ، حضرت حسینؓ کی حدیثیں کیوں نہیں آئیں نیچے ؟ تکا ہے ؟اتنا بڑا تُکا لگ گیا ؟ آخری خلیفہ ہے اور حدیثیں ہی کوئی نہیں ؟کسی بھی سنی سے پوچھیں گن کے چھ حدیثیں نکال کے دکھا دے علی بن ابی طالبؓ کی ، نہیں ملیں گی ۔مجھےبھی پتہ ہے کہ کیاکہانی ہے I am politically very Aware ہسٹری میں نے کئی اینگل سے پھرولی ہے "
ایک اور ویڈیو میں کہتے ہیں :
” پورے گروپ میں ہزار بندہ بیٹھا ہے بتائیں ایک کے پاس بھی حضرت حسین ؓ سے مروی کوئی حدیث ہے ؟ "( ایک خاتون جواب دیتی ہے کہ نہیں سر ، تو کہتے ہیں ) نہیں آ سکتی ، علی بن ابی طالب سے مروی کوئی حدیث دکھا دیں جو ساری عمر نبی ﷺ کے پاس پلے بڑھے ہیں "
ساحل صاحب کی مذکورہ بالا بات ذخیرہ احادیث سے کھلی ناواقفیت کی دلیل ہے کیونکہ ہم جب ذخیرہ احادیث کو دیکھتے ہیں تو ہمیں ایک نہیں ، دو نہیں ، دس نہیں بلکہ سینکڑوں روایات ایسی ملتی ہیں جو حضرت علیؓ اور حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے ملتی ہیں۔
چنانچہ امام حمیدیؒ جو امام بخاری ؒ کے استاد ہیں ان کی کتاب ” مسند الحمیدی ” میں حضرت علی ؓ سے 23 روایات منقول ہیں ۔
مسندابی داود میں 98 حدیثیں منقول ہیں :
مسند الإمام أحمد بن حنبل میں حضرت علی ؓ سے 819 روایات منقول ہیں ، اور حضرت حسن ؓ سے 12 روایات اور حضرت حسین ؓ سے 8 روایات منقول ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved