• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ساتوے (سات دن ختم) کے ثبوت میں ایک روایت کی تحقیق

استفتاء

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سات دن تک مردوں کی طرف سے کھانا کھلایا کرتے تھے ۔ (الحاوی للفتاوی للسیوطی 2/223)

یہ دعوت اسلامی کی پوسٹ ہے کیا یہ ٹھیک ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ پوسٹ ٹھیک ہے بشرطیکہ ایصال ِ ثواب کی حدود و قیود کا لحاظ رکھ کر کھانا کھلایا جائے مثلا اسے ضروری نہ سمجھے ، کوئی ایک دن مقرر نہ کرے ، کسی مخصوص طریقہ یا ذکر کو لازمی نہ سمجھے، اس میں نام و نمود یا لوگوں کے طعن وتشنیع سے بچنےکا خیال پیشِ نظر نہ ہو، جس ما ل سے ایصالِ ثواب کیا جارہا ہے اس میں کوئی وارث غائب یا نابالغ بچہ نہ ہواوریہ  کھانا فقراء و مساکین کو دیا جائے ۔

شرح صحیح مسلم للنووی (2/213) میں ہے :

الاجتماع على المقبرة في اليوم الثالث و تقسيم الورد و العود و الطعام في الأيام المخصوصة كالثالث و الخامس و التاسع و العاشر و العشرين و الأربعين و الشهر السادس و السنة بدعة ممنوعة

فتاوی شامی (2/240) میں ہے :

  مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت : وقال أيضا ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور وهي بدعة مستقبحة وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة اه  وفي البزازية ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره وفيها من كتاب الاستحسان وإن اتخذطعاما للفقراء كان حسنا اه وأطال في ذلك المعراج  وقال وهذه الأفعال كلها للسمعة والرياء فيحترز عنها لأنهم لا يريدون بها وجه الله تعالى اه

فتاوی رشیدیہ (ص148) میں ہے  :

سوال : میت کو ثواب پہنچانا بلاتعین تاریخ کے یعنی تیجا، دسواں ، چالیسواں نہ ہو درست ہے یا نہیں ؟

جواب : ثواب میت کو پہنچانا بلاقیدو تاریخ وغیرہ اگر ہوتو عین ثواب ہے اور جب تخصیصات اور التزامات مروجہ ہوں تو نا درست اور باعث مواخذہ ہوجاتا ہے ۔

کفایت المفتی (4/127) میں ہے  :

(سوال) بعد فوت ہونے مسلمان کے اس کے ورثاء برائے ایصال ثواب ہمراہ شخص متوفی کے کچھ گندم و نمک و نان پختہ واسطے تقسیم فقراء و مساکین کے لے جاتے ہیں اور قبرستان میں ہی تقسیم کرتے ہیں اور فاتحہ تیسرے روز کرتے ہیں اور دسواں ، بیسواں ، چالیسواں ، میت کے ثواب کے لئے ایک سال تک اس کی فاتحہ حسب ِ رواج قدیمانہ جیساکہ قدیم سے بزرگان اور مفتیان قدیم کرتے ہیں اور اس کا ثواب متوفی کو بخشتے ہیں ۔ آیا اس صورت میں ثواب میت کو پہنچے گا یا نہیں اور نیز کھانے کے آگے ہاتھ اٹھانا جائز ہے یا نہیں اور ماسوا متوفی کے انتظام کرنے والے کو بھی قیامت میں حصہ ملے گا یا نہیں ؟ بینوا توجروا

(جواب ۱۴۷) اموات کو ثواب پہنچانا مستحسن ہے عبادات مالیہ و عبادات بدنیہ کا ثواب پہنچتا ہے لیکن ایصال ِ ثواب کے لئے شریعت مقدسہ نے جو صورتیں مقرر نہیں کیں ان کو مقرر کرنا اور ایصال ِ ثواب کی شرط  سمجھنا یا مفید جاننا بدعت ہے شرعی صورت اس قدر ہے کہ اگر کسی میت کو ثواب پہنچانا ہے تو کوئی بدنی عبادت کرو مثلا نماز پڑھو ، روزہ رکھو ، قرآن مجید کی تلاوت کرو درود شریف پڑھو وغیرہ ۔ اور اس عبادت کا ثواب جس کو پہنچانا ہو اس کو اس طرح پہنچاؤ کہ یا اللہ !میں جو نماز پڑھی ہے یا روزہ رکھا ہے یا تلاوت کی ہے یا درود شریف پڑھا ہے اس کا ثواب اپنے فضل و رحمت سے فلاں میت کو پہنچادے ۔ اسی طرح اگر عبادت مالیہ کا ثواب پہنچانا ہے تو جو میسر ہو اس کو خدا تعالی کی راہ میں صدقہ کرو یا مسجد بنواؤ ، کنواں بنواؤ ، سرائے مسافر خانہ تعمیر کرو ، دینی مدرسہ قائم کرو وغیرہ اور مذکورہ بالا طریقے پر خدا تعالی سے دعا کرو کہ ان چیزوں کا ثواب اس میت کو پہنچادے جسے تم پہنچانا چاہتے ہو ۔ یہ تو ایصال ِ ثواب کا شرعی طریقہ ہے ۔ اب اس کئے لئے کوئی خاص تاریخ یا دن معین کرنا اور اس تعیین کو وصول ثواب کی شرط یا زیارت ثواب کے لئے بغیر شرعی دلیل کے مفید سمجھنا یا خاص چیزیں مقرر کرنا یا خاص مقام مثلا خاص قبر پر صدقہ کرنے کی تعیین یا مردے  کے جنازے کے ساتھ لے جانے کو ضروری یا مفید سمجھنا اور بھی اکثر امور جو رسم و رواج کے طور پر قائم ہوگئے ہیں یہ سب خلافِ شریعت اور بدعت ہیں کھانا سامنے رکھ کر فاتحہ پڑھنا بھی بے اصل ہے۔ اگر کھانے کا صدقہ کرنا مقصود ہے تو صدقہ کردو کسی مستحق  کو دے دو اگر تلاوت قرآن  مجید یا درود شریف کا ثواب پہنچانا ہے وہ بھی کرو مگر دونوں کا ثواب پہنچنے کی یہ شرط نہیں ہے کہ کھانا سامنے رکھ کر ہی پڑھا جائے یہ اشتراط نہ شریعت سے ثابت ہے اور نہ معقول کیونکہ کھانے پر فاتحہ دینے والے بھی کپڑے یا پیسے کا ثواب پہنچانا چاہتے ہیں تو اس پردہ بھی فاتحہ نہیں پڑھتے الغرض ایصال ِ ثواب فی حد ذاتہ جائز اور مستحسن ہے لیکن اس کی اکثر مواج صورتیں ناجائز اور بدعت ہیں ۔ 

اصلاح رسوم (ص170) میں ہے  :

بعض لوگ کہتے ہیں کہ پھر ایصالِ ثواب کس طرح کریں ۔ جواب یہ کہ جس طرح سلف صالحین کرتے تھے بلاتقیید و تخصیص اپنی ہمت کے موافق حلال مال سے مسکین کی خفیہ مدد کریں اور جو کچھ توفیق ہو بطور خود قرآن و غیرہ ختم کرکے اس کو پہنچا دیں ۔۔۔الخ

راہ سنت (ص249)میں ہے  :

بدنی اور مالی ہر قسم کی عبادت کا ثواب میت کو پہنچایا جاسکتا ہے مگر اس کیلئے  چند بنیادی اور اصولی شرطیں ہیں جب تک وہ نہ ہوں کوئی فائدہ نہیں ہوگا : (۱)میت مومن اور مسلمان و صحیح العقیدہ ہو ۔۔۔۔(۲)ایسی کسی عبادت میں ریا، نام و نمود و شہرت اور اپنی مصنوعی عزت اور ناک کی حفاظت کا ہرگز سوال نہ ہو اور لوگوں کے طعن وتشنیع سے بچنے کا خیال ہی دل میں ہو اور خیرات من و اذی سے بھی پاک ہو (۳)جو صدقہ و خیرات میں دیا جائے وہ حلال اور طیب ہو ۔۔۔(۴)جس مال کا صدقہ و خیرات دی جائے اس میں کوئی وارث غائب اور نابالغ بچہ نہ ہو ورنہ اس کا صدقہ کرنا بلاخلاف حرام اوور موجب عذاب خداوندی ہے (5)جو قرآن میت کو پڑھ کر بخشا جائے وہ بلا معاوضہ اور بلا اجرت پڑھایا جائے ۔(۶) اپنی طرف سے دنوں کی او رخاص کیفیتوں کی تعیین نہ کی جائے اور نہ کھانے کی اقسام میں یہ تعیین ہو (۷)یہ کھانا صرف فقراء و مساکین کو دیا جائے ، برادری کو اور اغنیاء کو نہ کھلایا جائے ۔ ان میں بعض امور ایسے ہیں جن میں کسی ادنی کلمہ گو کو بھی شک و شبہ نہیں ہوسکتا اور ان کا ثبوت قرآن کریم اورصحیح احادیث سے بخوبی واضح ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved