• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

سحری کے وقت کھاتے ہوئے اذان شروع ہوجائے تو اپنی ضرورت پوری کرنے سے سے متعلق حدیث

استفتاء

صحیح مسلم میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ کی روایت میں سحری دیر سے(اذان فجر کےبالکل قریب )کھانے کاذکر ہےاوراگرسحری کھاتےہوئےاذان ہوجائےتواپنی ضرورت پوری کرلیناچاہیے۔(مسلم 1097)

اس حدیث کےبارےمیں احناف کاکیامسلک ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ عبارت میں دوحدیثوں کو خلط کرکے(جوڑکر)ایک بنایا گیاہےجوکہ علمی خیانت ہے جبکہ یہ دوالگ الگ حدیثیں ہیں  پہلی حدیث مسلم شریف کی ہےجس میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتےہیں ہم نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ سحری کی پھرنمازکےلیےچل دیےحضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت زیدرضی اللہ عنہ سےپوچھاکہ سحری اورنمازکےدرمیان کتناوقفہ تھا؟انہوں نےفرمایاجتنی دیرمیں پچاس آیات کی تلاوت ہوتی ہےچنانچہ حدیث کےالفاظ یہ ہیں :

مسلم  ج1ص 350

عن انس عن زیدبن ثابت قال تسحرنامع رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قمناالی الصلاة قلت كم كان قدرمابينهما؟ قال خمسين آية

ترجمہ:حضرت زیدرضی اللہ عنہ سےمروی ہےفرماتےہیں کہ ہم نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ سحری کی پھرنمازکےلیےچل دیےحضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت زیدرضی اللہ عنہ سےپوچھاکہ سحری اورنمازکے درمیان کتناوقفہ تھا؟انہوں نےفرمایاجتنی دیرمیں پچاس آیات کی تلاوت ہوتی ہے

مسلم شریف کی مذکورہ حدیث میں ’’اگرسحری کھاتےہوئےاذان ہوجائےتواپنی ضرورت پوری کرلینی چاہیے‘‘ کی عبارت نہیں ہے۔

دوسری حدیث ابوداؤدشریف کی ہےجس میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتےہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاجب تم میں سےکوئی اذان کی آوازسنےاوربرتن اس کےہاتھ میں ہوتواپنی ضرورت پوری  کرنےتک اس برتن کونہ رکھے۔

ابوداؤدج 1ص328میں ہے:

عن ابی هريرة رضى الله قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اذاسمع احدكم النداء والاناءعلى يده فلايضعه حتى يقضى حاجته

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتےہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاجب تم میں سےکوئی اذان کی آوازسنےاوربرتن اس کےہاتھ میں ہوتواپنی ضرورت پوری  کرنےتک اس برتن کونہ رکھے۔

اس حدیث میں ’’سحری کھانے ‘‘کاذکرنہیں بلکہ عام کھانےکاذکرہےچنانچہ اس حدیث کامطلب یہ ہےکہ کھانےکے دوران اذان ہوجائےتوکھاناچھوڑکرنمازکےلیےجاناضروری نہیں بلکہ پہلےکھاناکھالوپھرنماز کےلیےچلے جاؤ،اوراگراس حدیث میں کھانےسےسحری کاکھاناہی مرادہو توپھرحدیث کامطلب وہ ہوگاجوبخاری ومسلم کی روایت میں آیا ہے۔

لايمنعكم اذان بلال فانه يؤذن بليل حتى يؤذن ابن ام مكتوم

ترجمہ:حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کی اذان تمہیں کھانےسےنہ روکےکیونکہ وہ رات کواذان دیتےہیں  یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دےدیں ۔

مطلب یہ ہے کہ اگرکوئی مؤذن وقت سےپہلےاذان دےدےتواس سے سحری کاوقت ختم نہیں ہوتاکیونکہ اعتبار وقت کاہےاذان کا نہیں ۔

التنویرشرح جامع الصغیرج2ص97میں ہے:

إذا سمع أحدكم النداء والإناء على يده فلا يضعه حتى يقضي حاجته منه (حم د ك) عن أبي هريرة (صح)(إذا سمع أحدكم النداء) بضم النون وكسرها هو الصوت كما في القاموس وقد صار في لسان الشرع: عبارة عن صوت مخصوص هو الدعاء إلى الصلاة بألفاظ مخصوصة، وأريد به هنا الإقامة ويحتمل أنه أريد به الأذان نفسه وأن المراد به لا يجيب الإجابة المسنونة إلا بعد فراغه (والإناء) إناء الطعام أو الشراب (على يده فلا يضعه حتى يقضي حاجته منه) وهو نظير: "إذا حضر العشاء والعشاء تقدم ويحتمل أن الخطاب للصائمين وأنه إذا سمع أحدهم أذان الصبح وبهذا جزم الرافعي وغيره (حم د ك عن أبي هريرة) رمز المصنف لصحته قال الحاكم: على شرط مسلم وأقره الذهبي إلا أنه قال: إنه مشكوك في رفعه

فیض القدیرج1ص377میں ہے:

(إذا سمع أحدكم النداء) أي الأذان للصبح وهو يريد الصوم (والإناء) مبتدأ (على يده) خبره (فلا يضعه) نهي أو نفي بمعناه (حتى يقضي حاجته) بأن يشرب منه كفايته ما لم يتحقق طلوع الفجر أو يظنه يقرب منه وما ذكر من أن المراد به أذان الصبح هو ما جزم به الرافعي فقال : أراد أذان بلال الأول بدليل إن بلالا يؤذن بلبل فكلوا واشربوا حتى يؤذن ابن أم مكتوم وقيل المراد أذان المغرب فإذا سمعه الصائم والإناء في يده فلا يضعه بل يفطر فورا محافظة على تعجيل الفطر وعليه قال الطيبي : دليل الخطاب في أحدكم يشعر بأنه لا يفطر إذا لم يكن الإناء في يده ويأتي أن تعجيل الفطر مسنون مطلقا لكن هذا مفهوم لقب فلا يعمل به (حم د ك عن أبي هريرة) قال الحاكم على شرط مسلم وأقره الذهبي لكن قال في المنار مشكوك في رفع۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved