• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

شب برأت کے وجود اور اس کی فضیلت کا انکار

استفتاء

مفتیان کرام اور علمائے دین سے گذارش ہے کہ مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

ہم بچپن سے اپنے علمائے کرام سے یہ سنتے آئے ہیں کہ شب برأت کی بہت فضیلت اور اہمیت ہے، اس رات اللہ تعالیٰ پورے سال کے معاملات تکوینی ملائکہ کے حوالے کرتا ہے۔ 15 شعبان المعظم ہی کی رات تھی جب سرور دو عالم ﷺ جنت البقیع تشریف لے گئے، یہ رحم و کرم اور مغفرت کی رات ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارئے علمائے کرام ہمیں یہ بھی بتلاتے رہے کہ اس رات بدعات سے بھی بچنا ہے، اس رات کوئی خاص عبادت یا خاص طرز عبادت منقول نہیں، یعنی ایک اعتدال پر مبنی طریقہ اور راستہ سمجھایا، حتی کہ ہمارے علمائے کرام نے انصاف پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہاں تک بتایا کہ 15 شعبان المعظم کی اہمیت و فضیلت کے حوالے سے جو احادیث و روایات منقول ہیں وہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں، مگر وہ اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کا ضعف ختم ہو جاتا ہے۔

اب  مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے علاقے کے ایک عالم دین جو خود بھی پچھلے بیس پچیس برسوں سے شب برأت اور 15 شعبان کی اہمیت و فضیلت کے حوالے سے درس دیتے رہے، اور اس رات کا اہتمام بھی کرتے رہے، وہ اچانک اپنے پرانے موقف سے ہٹ گئے ہیں، اور اب وہ  اپنے درس و خطابت میں اس کی اہمیت و فضیلت  بلکہ اس کے وجود ہی کے خلاف بات کر رہے ہیں، وہ عالم دین اچھی شہرت کے حامل ہیں، اور لاہور کے انتہائی معتبر دینی ادارے سے وابستہ ہیں، اپنے مؤقف کے حق میں وہ تین دلائل پیش کر رہے ہیں، جو درج ذیل ہیں:

1۔ مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ اپنی شہرہ آفاق تفسیر معارف القرآن میں سورة الدخان کی ابتدائی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے اس رات یعنی 15 شعبان کا ردّ فرماتے ہیں۔ حوالے کی کاپی ساتھ  ہے۔

2۔ دوسری دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ حضرت مولانا محمد منظور نعمانی صاحب رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب معارف الحدیث میں فرماتے ہیں کہ اس رات کا کوئی وجود نہیں، اس حوالے سے جتنی روایات ہیں، وہ سب ناقابل اعتبار ہیں۔ حوالے کی کاپی ساتھ ہے۔

3۔ تیسری دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ در حقیقت شب برأت روافض کی اختراع ہے، چونکہ ان کے نزدیک امام مہدی کی پیدائش اسی روز ہوئی، لہذا اسی مناسبت سے انہوں نے اس رات کو ایجاد کیا، یہ شب برأت نہیں، شب تبراء ہے۔

حضرات محترم ہم جیسے عامی مخمصے کا شکار ہیں کہ جائیں تو جائیں کہا؟

1۔ مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کی تفسیر کو دیکھیں تو بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس نظریہ کی تردید کر رہے ہیں کہ جو لوگ 15 شعبان کو لیلۃ القدر سمجھ رہے ہیں کہ وہ غلطی پر ہیں، لیلہ مبارکہ سے مراد رمضان کی لیلۃ القدر ہے، جبکہ اگر اسے یہی سمجھ لیا جائے کہ وہ شب برأت کا ردّ کر رہے ہیں تو اس کا کیا کریں کہ مفتی صاحب رحمہ اللہ نے شب برأت کے حوالے سے ایک الگ مستقل کتابچہ لکھا ہے، جس کا عنوان ہی شب برأت ہے، جبکہ مفتی صاحب کے صاحبزادے ہمارے بہت ہی محترم جسٹس تقی عثمانی صاحب  حفظہ اللہ اصلاحی خطبات میں بعینہ وہی بات فرما رہے ہیں جو ہم بچپن سے اپنے علماء سے سنتے چلے آ رہے ہیں، جیسا کہ ابتداء میں ذکر کیا۔

2۔ جہاں تک معارف الحدیث کا تعلق ہے، سچی بات ہے کہ مولانا نعمانی صاحب رحمہ اللہ بھی غالباً یہی فرما رہے ہیں کہ شب برأت کے حوالے سے جو روایات منقول ہیں، وہ سب کمزور اور ضعیف ہیں، مگر جیسا کہ علمائے حدیث کا یہ اصول ہے کہ جب ضعیف احادیث اتنی کثرت سے ہوں تو ان کا ضعف ختم ہو جاتا ہے، چنانچہ اس کی کوئی اصل ہے، و اللہ اعلم بالصواب

3۔ رہی روافض کی بات تو حضرت یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کا روافض سے کیا تعلق ہوا، شب برأت کے حوالے سے جو روایات یا اختلاف نظر آ رہا ہے، وہ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے منقول ہے، جبکہ امام مہدی علیہ السلام کی پیدائش کو اگر مان بھی لیا جائے، تو وہ تو بہت بعد کی چیز ہے، اگر اس کو بنیاد بنایا جائے تو کیا واقعتاً کربلا کی وجہ سے عاشورہ کی اہمیت کا انکار کر دیا جائے؟

یہ چند معروضات تھیں، جو آپ کے سامنے رکھی ہیں، اگرچہ میرا یہ مقام و منصب نہیں کہ میں اس حوالے سے کچھ کہتا، مگر ایک سائل اور ایک عقلِ عام رکھنے والے انسان کی حیثیت سے مخمصہ اور پریشانی کا شکار ہوں کہ اصل کیا ہے، کیا وہ جو ہمارے علاقے کے عالم دین صاحب فرما رہے ہیں، یا وہ جس پر ہمارے اکابرین مجموعی طور پر عمل پیرا ہیں؟ براہ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ اگر کوئی ایسا عمل یا نظریہ جو ہمارے اکابرین کا ہو، مگر وہ قرآن و سنت سے مطابقت نہ رکھتا ہو، تو انشاء اللہ ایک لمحہ بھی نہیں لگائیں گے کہ قرآن اور سنت کی طرف پلٹنے کا کیونکہ یہی ہم نے اپنے اکابرین سے سیکھا ہے۔

نوٹ: ملاحظہ ہو معارف القرآن، جلد ہفتم، صفحہ: 758- 757، سورة الدخان۔

ملاحظہ ہو معارف الحدیث : جلد چہارم، صفحہ: 389، کتاب الصوم

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

شب برأت کا وجود اور اس کی اہمیت و فضیلت کے بارے میں اصل بات وہی ہے، جس پر ہمارے اکابرین مجموعی طور پر عمل پیرا ہیں۔ مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ اور حضرت مولانا منظور نعمانی صاحب رحمہ اللہ کی منسلکہ تحریرات سے شب برأت کے وجود یا اس کی فضیلت کی نفی نہیں ہوتی۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved