- فتوی نمبر: 12-17
- تاریخ: 30 مارچ 2018
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات > متفرقات حدیث
استفتاء
پندرہ شعبان کی رات جسے شب براء ت بھی کہا جاتا ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟شرعی دلائل سے واضح فرمادیں ۔نیز اس رات میں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
پندرہ شعبان کی رات جسے لیلۃ البراء ۃ بھی کہا جاتا ہے فضلیت اور عظمت والی رات ہے اور پندرہ شعبان کے دن کا روزہ بھی منقول ہے۔چنانچہ حدیث مبارکہ ہے :
عن علی بن ابی طالب ؓ قال قال رسول الله ﷺ اذاکان لیلة النصف من شعبان فقوموا لیلها وصوموا نهارها فان الله تعالی ینزل فیها لغروب الشمس الی سماء الدنیا فیقول هل من مستغفرلی فاغفرله الامسترزق فارزقه الا مبتلی فاعافیه الاکذا الاکذا حتی یطلع الفجر(ابن ماجه.شعب الایمان،بهیقی)
’’حضرت علی ؓ سے مروی ہے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا :
جب پندرہ شعبان کی رات ہو تو اس رات کا قیام (عبادت)کرو اور دن کا روزہ رکھو۔کیونکہ اس رات میں سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی اللہ کی رحمت خاصہ نچلے آسمان پر آتی ہے اور نداء لگاتی ہے کیا کوئی گناہوں کی بخشش کروانے والا ہے کہ جسے بخش دوں !کیا کوئی رزق کا طالب ہے کہ اسے رزق دوں! کیا کوئی مصیبت زدہ ہے کہ اسے عافیت دو ں!کیا کوئی ہے کیا کوئی ہے ،یہ سلسلہ طلوع فجر تک جاری رہتا ہے ‘‘
اس لیے اس رات کو گناہوں کی معافی مانگنے اور عبادت میں گذارنا چاہیے ۔البتہ اس رات کی عبادت نفلی ہے اپنی اپنی کرنی چاہیے اجتماعی عبادت کی ترتیب نہیں بنانی چاہیے ۔ اسی طرح ان لایعنی اور غلط چیزوں سے بھی بچنا چاہیے جو اس رات کی نسبت سے بعض لوگوں نے ایجاد کر رکھی ہیں جیسے روشنیوںمیں اسراف، آتش بازی اور کھانے پکانے کے تکلفات ۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیے ’’فضیلت کی راتیں ‘‘تالیف :حضرت مولانا نعیم الدین صاحب مدظلہم۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved