• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

یا شب برات کے بارہ نوافل سے متعلق حدیث صحیح ہے ؟

استفتاء

رجب میں ایک رات ہے کہ اس میں نیک عمل کرنے والے کو سو برس کی نیکیوں کا ثواب ملتا ہے اور وہ رجب کی ستائیسویں شب ہے جو اس میں بارہ رکعت اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ اور کوئی سی ایک سورت اور ہر دو رکعت پر التحیات پڑھے اور بارہ پوری ہونے پر سلام پھیرے ۔اس کے بعد 100 مرتبہ یہ پڑھے سبحان اللہ و الحمد للہ و لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر اور استغفار 100 مرتبہ ، درود شریف 100 مرتبہ پڑھے اور اپنی دنیا اور آخرت سے جس چیز کی چاہے دعا مانگے اور صبح کو روزہ رکھے تو اللہ تعالی اس کی سب دعائیں قبول فرمائے گا سوائے اس دعا کے جو گناہ کے لئے ہو ۔(شعب الایمان للبیھقی ج 3ص374رقم الحدیث 3812)

کیایہ حدیث صحیح ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

یہ حدیث اکثر محدثین کے نزدیک ضعیف ہے جبکہ بعض محدثین نے اسے موضوعات میں شمار کیا ہے ۔نیزفقہاء کرام نے دن کے نوافل میں ایک سلام کے ساتھ چار رکعات سے زائد پڑھنا اور رات کے نوافل میں آٹھ رکعات سے زائد پڑھنا مکروہ تحریمی لکھا ہےلہذا اس پر عمل کرنا   جائز نہیں۔چنانچہ علّامہ ابن عراق کنانیؒ  اپنی کتاب تنزیہ الشریعہ (جلد2 صفحہ90) میں فرماتے ہیں   :

و روينا من حديث أنس مرفوعا : في رجب ليلة يكتب للعامل فيها حسنات مائة سنة، وذلك لثلاث بقين من رجب، فمن صلى فيها اثني عشر ركعة يقرأ في كل ركعة فاتحة الكتاب وسورة من القرآن، يتشهد في كل ركعتين ويسلم في آخرهن، ثم يقول سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر مائة مرة، ويستغفر مائة مرة ويصلي على النبي مائة مرة، ويدعو لنفسه بما شاء من أمر دنياه وآخرته، ويصبح صائما فإن الله يستجيب دعاءه كله، إلا أن يدعو في معصية ۔ رواه البيهقي وفيه متهمان محمد بن الفضل بن عطية وأبان بن أبي عياش ۔

فتاوی شامی   (2/551)

وَتُكْرَهُ الزِّيَادَةُ عَلَى أَرْبَعٍ فِي نَفْلِ النَّهَارِ، وَعَلَى ثَمَانٍ لَيْلًا بِتَسْلِيمَةٍ لِأَنَّهُ لَمْ يَرِدْ

(قَوْلُهُ لِأَنَّهُ لَمْ يَرِدْ) أَيْ لَمْ يَرِدْ عَنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ زَادَ عَلَى ذَلِكَ.وَالْأَصْلُ فِيهِ التَّوْقِيفُ كَمَا فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ: أَيْ فَمَا لَمْ يُوقَفْ عَلَى دَلِيلِ الْمَشْرُوعِيَّةِ لَا يَحِلُّ فِعْلُهُ بَلْ يُكْرَهُ أَيْ اتِّفَاقًا كَمَا فِي مُنْيَةِ الْمُصَلِّي أَيْ مِنْ أَئِمَّتِنَا الثَّلَاثَةِ، نَعَمْ وَقَعَ الِاخْتِلَافُ بَيْنَ الْمَشَايِخِ الْمُتَأَخِّرِينَ فِي الزِّيَادَةِ عَلَى الثَّمَانِيَةِ لَيْلًا،فَقَالَ بَعْضُهُمْ لَا يُكْرَهُ وَإِلَيْهِ ذَهَبَ شَمْسُ الْأَئِمَّةِ السَّرَخْسِيُّ وَصَحَّحَهُ فِي الْخُلَاصَةِ وَصَحَّحَ فِي الْبَدَائِعِ الْكَرَاهَةَ.قَالَ:وَعَلَيْهِ عَامَّةُ الْمَشَايِخِ،وَتَمَامُهُ فِي الْحِلْيَةِ وَالْبَحْرِ۔

قال الرافعی : قوله (لا يحل فعله بل يكره الخ) بما قاله في المنية من الاتفاق على الكراهية بين ائمتنا الثلاثة يعلم ضعف تصحيح السرخسي  بحر ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved