• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

شب جمعہ کو روحوں کاگھروں میں واپس آنا

استفتاء

س :جمعرات کے دن فاتحہ خوانی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

ج :جب کوئی مسلمان  فوت ہوتا ہے تو اسے شروع دنوں میں ایصال ثواب کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے

شیخ محمد  عبدالحق محدث دہلوی اشعۃاللمعات میں تحریر کرتے ہیں

میت کے انتقال کے بعد سات روز تک صدقہ دیا جائے جمعہ کی رات کو مردے کی روح اپنے گھر آتی ہے اور دیکھتی ہے کہ اس کی طرف سے اس کے گھر والے صدقہ کرتے ہیں یا نہیں ہر جمعرات کو فاتحہ کرنے کی یہی اصل ہے ۔

اس سوال جواب کے بارے میں آپ کی کیا رائےہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

فاتحہ خوانی کے لئے لیے جمعرات کے دن کو خاص کرنابے بنیادہے جہاں تک شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ کی عبارت کا تعلق ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت رحمہ اللہ نے ،،در بعض روایات  آمدہ است کہ روح میت می آید خانہ خودرا شب جمعہ پس  نظری کند کہ تصدق می کند از وے یانہ،،

فرمایا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ بعض روایات میں یہ بات آئی ہے کہ میت کی روح جمعرات کو اپنے گھر آتی ہے اب یہ روایات کہاں ہیں  ؟ان کے راوی کون ہیں ؟یہ روایات صحیح ہیں یا من گھڑت ہیں ؟وغیرہ وغیرہ اس کا کچھ تذکرہ حضرت رحمہ اللہ نے نہیں کیا ۔نیز یہ روایات صحیح روایات کے مخالف ہیں لہذا ان کی بنیاد پر فاتحہ خوانی کے لئے جمعرات کے دن کی تعیین ثابت کرنا درست نہیں۔

امداد الاحکام (816/1)میں ہے:

سوال :یہاں ہمارے علاقہ میں اکثر لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ارواح جمعرات یا جمعہ کو مکانوں میں آتی ہیں اور شب برات میں تمام مردوں کی روحیں ضرور اپنے قرابت داروں کے یہاں آیا کرتی ہیں کیونکہ چھوٹی چھوٹی

کتابوں میں لکھا ہوا ہے اس لیے ان کا عقیدہ راسخ ہے ؟

الجواب :اس پر کوئی دلیل قائم نہیں کہ سب ارواح جمعرات یا جمعہ کو یا پندرہ شعبان کو اپنے گھر آتی ہیں کیونکہ اول تو زمین میں تصرف کی اجازت سب ارواح کو نہیں ہوتی بلکہ خاص خاص کو ہوتی ہے دوسرے جن کو تصرف وسیر فی الارض کا اختیار بھی دیا جاتا ہے یہ ضروری نہیں کہ وہ جمعرات یا جمعہ ہی کو زمین میں تصرف وسیر کریں اور تصرف و سیر میں اپنے گھر بھی ضرور آئیں پس یہ عقیدہ بلا دلیل ہے اس سے احتراز لازم ہے حرہ الاحقرظفر احمد عفا عنہ

اشرف علی عرض کرتا ہے کہ جب اس عقیدہ کا بے دلیل ہونا ثابت ہوگیا اور عقیدہ بے دلیل کے باب میں حکم شرع ہے لا تقف ما ليس لك به علم پس بنابر اس آیت کے ایسا عقیدہ رکھنے سے عاصی ہوگا اس سے توبہ واجب ہے اور کسی کتاب میں کوئی مضمون ہو نا حجت شرعیہ نہیں تاوقتیکہ اس پر کوئی دلیل نہ ہو اور یہ امر متعلق نقل کے ہے اس لئے دلیل نقلی ہونا شرط ہے جو اصول شریعت کی رو سے قابل استدلال ہو اور ایسی دلیل مفقود ہے اس لیے ایسی کتاب کافی نہیں۔

براہین قاطعہ (ص93)میں ہے:

پس ہر سہ روایت آنے ارواح کی مخالف صحاح کی ہیں کیوں کے مشکاۃ میں نسائی اور احمد سے منقول ہے کہ جب میت کی روح برزخ میں جاتی ہے تو ارواح جمع ہو کر اپنے اقارب کے احوال پوچھتے ہیں تو جو پہلے مر گیا تھا اس کو کہتا ہے کہ وہ تو مجھ سے پہلے مر گیا تھااگر ہر ہفتہ ارواح اپنے گھر جاتی ہیں تو ان کو کیا حاجت استفسار کی ہے اپنی آنکھ سے تو سب حال دیکھ دیکھ  کر آتے ہیں اور سوائے اس کے اور احادیث میں اس قسم کی دلالات موجود ہیں کہ ان روایات کو رد کرتی ہیں پس یہ ہرگز قابل اعتبار نہیں اور نہ اس پر عمل سلف کا ہوا۔

فتاوی رشیدیہ( ص284) میں ہے:

سوال ارواح مومنین جمعہ کو اپنے اہل و عیال میں آتی ہیں یہ صحیح ہے یا نہیں اس طرح کا عقیدہ رکھنا درست ہے یا نہیں؟

جواب۔ ارواح مومنین  کا شب جمعہ وغیرہ کو اپنے گھر آنا کہیں سے ثابت نہیں ہوا یہ روایات وا ہیہ ہیں اس پر عقیدہ رکھنا ہرگز نہیں چاہیے ۔

نوٹ :ہم نے ازخود شیخ عبد الحق محدث  دہلوی رحمہ اللہ کی ذکر کردہ روایات کو تلاش کرنے کی کوشش کی تاکہ ان کی سند کا حال معلوم ہو سکے تا ہم کافی تلاش کےباوجود مذکورہ روایت کسی مستند کتاب میں نہیں مل سکی البتہ امام عبدالرحیم بن احمدالقاضی نےاپنی کتاب دقائق الاخبار فی ذکرالجنۃ والنارمیں اس طرح کی ایک روایت ذکرکی ہے جس سےمعلوم ہوتاہےکہ مخصوص دنوں میں روحیں گھروں کوواپس آتی ہیں لیکن انہوں نے بھی نہ تواس روایت کی سندذکرکی ہےاورنہ کسی اورمعتبرکاکتاب حوالہ دیا ہے۔

دقائق الاخبارفی ذکر الجنۃ والنار(ص61) میں ہے:

قال ابن عباس رضي الله عنهمااذكان يوم العيدويوم عاشوراءويوم الجمعة الاول من رجب وليلة النصف من شعبان وليلة القدروليلة الجمعة تخرج ارواح الاموات من قبورهم ويقفون علي ابواب بيوتهم ويقولون ترحمواعلينافي هذه الليلة المباركة بصدقة ………الخ

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved