• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شاہ ولی اللہ ؒ کا 12 ربیع الاول کو نیاز تقسیم کرنا اور موئے مبارک کی زیارت کروانا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ  ! مفتی صاحب ! بارہ ربیع الاول کو موئے مبارک کی زیارت  اور لنگر تقسیم کرنا اور اس عنوان سے لوگوں کو جمع کرنا کیسا ہے ؟ اور ایسی محفل میں ہمارا شریک ہونا کیسا ہے ؟ اگر یہ غلط ہے تو اکابر ایسا کیوں کرتے تھے ؟

تنقیح : کونسے اکابر ایسا کرتے تھے ؟

جواب تنقیح :  حضرت  مولانا محمد*** صاحب ؒ نے حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کے احوال پر مشتمل کتاب " القول الجلی فی ذکر آثار الولی ” میں حضرت شاہ صاحب رح کا معمول ذکر کیاہے  کہ ” حسب دستور 12 ربیع الاول کو میں نے قرآن پاک کی تلاوت کی اور حضور ﷺ کی کچھ نیاز تقسیم کی اور آپ ﷺ کے موئے مبارک کی زیارت کروائی ، اس موقع پر فرشتوں کا نزول ہوا اور رسول اللہ ﷺ کی روح پر فتوح نے اس فقیر اور اس سے محبت کرنے والے کی طرف بہت التفات فرمایا ۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ فرشتوں کی ٹولی اور ان کے ساتھ مسلمانوں کی جماعت  نیاز مندی اور عاجزی کی بنا پر بلند ہو رہی ہے اس کیفیت کی برکتیں اور انوارات نازل ہو رہے ہیں ۔

اسی طرح  حضرت شاہ ولی اللہ ؒ   کی کتاب فیوض الحرمین میں درج ذیل عبارت ملتی ہے

 وکنت قبل ذلک بمكة المعظمة فی مولد النبی صلی الله تعالیٰ عليه وسلم فی یوم ولادته والناس یصلون علی النبی  یذکرون ارهاصاته التی ظهر فی ولادته و مشاهده قبل بعثته فرایت انوارا سطعت دفعة واحدۃ لا اقول انی ادرکتها ببصر الجسد ولا اقول ادرکتها ببصر الروح فقط والله اعلم کیف کان الامر بین هذه و ذاک فتاملت تلک الانوار فوجدتها من قبل الملائكة الموکلین بامثال هذه المشاهد  و بامثال هذه المجالس ورایت یخالط انوار الملائكة انوار الرحمة

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

موئے مبارک کی زیارت کرنا  یا کروانا اور اسی طرح محتاجوں ،فقیروں ، غریبوں  میں لنگر تقسیم کرنا شرعا جائز اور باعث برکت و اجر و ثواب ہے تاہم چونکہ یہ کام صرف مستحب ہیں اور  مستحب کاموں کے  جائز ہونے کے لیے منجملہ دیگر شرائط کے ایک شرط یہ بھی ہے کہ اس مستحب کے لیے  دن کی تعیین  نہ کی جائے اور تداعی کر کے لوگوں کو جمع نہ کیا جائے ۔  دن کی تعیین کا مطلب یہ ہے کہ  اس کا م کے  لیے کوئی وقت اس طرح متعین کرے کہ اس کام کو اسی وقت میں کرنا لازم سمجھے یا لازم تو نہ سمجھے مگر اس پر ایسا دوام اختیا ر کرے کہ کبھی کبھار بھی اس کام کو اس دن کے علاوہ میں نہ کرے ۔لہذا امور مذکورہ کے لیے جو مجلس تداعی کر کے منعقد کی گئی ہو یا اس کے لیے دن کی ایسی تعیین کی گئی ہو جو ممنوع ہے یا اس میں دیگر مفاسد ہوں مثلا اختلاط مرد و زن ،اسراف  یا اہل بدعت سے مشابہت تو ایسی مجلس میں شرکت کرنا جائز نہیں ۔ اور جس مجلس کے لیے نہ  تداعی کی گئی ہو اور نہ دن کی ایسی تعیین کی گئی ہو جو ممنوع ہے اور نہ اس میں دیگر مفاسد ہوں تو ایسی مجلس میں شرکت کرنا نہ صرف جائز بلکہ باعث برکت و اجر و ثواب بھی ہے ۔

باقی رہی  یہ بات کہ”  اکابر ایسا کیوں کرتے تھے” ؟ تو اس کے دو جواب ہیں :

(1)   اکابر کے ان کاموں میں دن کی تعیین نہ تھی اور نہ  ہی لوگوں کو تداعی کر کے جمع کیا جاتا تھا  اور نہ ان حضرات کی عبارات سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ دن کی تعیین کرتے ہوں یا ایسا دوام اختیار کرتے ہوں کہ جس کو کبھی کبھار بھی ترک نہ کرتے ہوں۔ چنانچہ ان حضرات کے اپنے فتووں میں دن کی تعیین کو بدعت کہا گیا ہے جیسا کہ آئندہ آنے والے حوالوں میں ہے ۔

(2)  مسائل شرعیہ میں اصل حجت اصول صحیحہ یعنی  قرآن و سنت ، اجماع امت  اور  مجتہدین کا قیاس ہے اور مقلدین کے لیے اقوال مجتہدین ہیں  جو کتب معتبرہ سے ثابت ہوں ۔لہذا اکابر کا کوئی عمل ان اصول صحیحہ کے خلاف نظر آئے تو اگر اس کی کوئی صحیح تاویل ممکن ہو  تو وہ تاویل کریں گے وگرنہ اصول صحیحہ کے مقابلے میں ان اکابر کے عمل کو رد کر دیں گے ۔

بحر الرائق (1/366) میں ہے:

وأصل هذا أن التطوع بالجماعة إذا كان ‌على ‌سبيل ‌التداعي يكره في الأصل للصدر الشهيد۔

بحر الرائق (2/75) میں ہے:

ولو صلوا الوتر بجماعة في غير رمضان فهو صحيح مكروه كالتطوع في غير رمضان بجماعة وقيده في الكافي بأن يكون ‌على ‌سبيل ‌التداعي أما لو اقتدى واحد بواحد أو اثنان بواحد لا يكره وإذا اقتدى ثلاثة بواحد اختلفوا فيه وإن اقتدى أربعة بواحد كره اتفاقا۔

در مختار (78) میں ہے:

  (والجماعة سنة مؤكدة للرجال)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وفي وتر غيره وتطوع ‌على ‌سبيل ‌التداعي مكروهة

بدائع الصنائع (1/273) میں ہے :

ولا ينبغي ‌أن ‌يوقت ‌شيئا ‌من ‌القرآن في الوتر لما مر، ولو قرأ في الركعة الأولى {سبح اسم ربك الأعلى} [الأعلى: 1] ، وفي الثانية {قل يا أيها الكافرون} [الكافرون: 1] ، وفي الثالثة {قل هو الله أحد} [الإخلاص: 1] اتباعا للنبي – صلى الله عليه وسلم – كان حسنا لكن لا يواظب عليه كي لا يظنه الجهال حتما

فتاوی عالمگیری (1/78) میں ہے :

ويكره ‌أن ‌يوقت ‌شيئا ‌من ‌القرآن ‌لشيء ‌من ‌الصلوات قال الطحطاوي والإسبيجابي هذا إذا رآه حتما واجبا بحيث لا يجوز غيره أو رأى قراءة غيره مكروهة وأما إذا قرأ لأجل اليسر عليه أو تبركا بقراءته – صلى الله عليه وسلم – فلا كراهية في ذلك ولكن يشترط أن يقرأ غيره أحيانا لئلا يظن الجاهل أن غيره لا يجوز. هكذا في التبيين۔

(  بدائع الصنائع و  ہندیہ کے حوالوں سے معلوم ہو گیا کہ التزام اور اہتمام میں فرق ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کام کے ” اہتمام ” کے لیے اس کا  تعین کرتا ہے  اور اس کے ترک کو بھی جائز سمجھتا ہو تو یہ جائز ہے  بشرطیکہ اس اہتمام کو کبھی کبھی ترک بھی کر دے تا کہ جاہل آدمی یہ نہ سمجھنے لگے کہ اس کا  ترک جائز نہیں )

کفایت المفتی (1/221) میں ہے:

(جواب ۲۱۷) ایصال ثواب جائز و مستحسن ہے۔اس کو کوئی ناجائز اور بدعت نہیں کہتا۔ لیکن ایصال ثواب کے لئے شریعت مقدسہ نے تعیین تاریخ و یوم اور تخصیص  اشیاء نہیں کی ہے ۔ اس لئے مانعین کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز  کو خدا تعالیٰ اور رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے معین  ومخصوص نہیں کیا اسے ہم بھی معین و مخصوص نہ کریں ۔ گیارھویں بارھویں سوم دہم چہلم وغیرہ لوگوں نے مقرر کر لیے ہیں ۔ ورنہ حضور انور ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ سے ان ایام کی تعیین و تخصیص منقول اور مروی نہیں ہے ۔ نہ ان بابرکت زمانوں میں یہ نام تھے ۔ اور نہ ان زمانوں میں ایصال ثواب کا کوئی اہتمام کیا جاتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جن بزرگوں کے نام سوال میں ذکر کئے گئے ہیں ۔ وہ بے شک بزرگ اور صلحاء امت میں سے ہیں ۔ مگر اتباع و اقتداء کے لئے آنحضرت ﷺ کا اسوہ حسنہ اور صحابہ کرام اور سلف صالحین کا طریقہ مسلوکہ اولی اور افضل ہے ۔ ان بزرگوں کے اعمال کی ایسی تاویل  کرنی لازم ہے کہ ان کا فعل سنت نبویہ علی صاحبہا السلام والتحیۃ کے خلاف قرار نہ پایا جائے۔ ایک صاحب ایمان کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکام اور سنت نبویہ و اسوہ آنحضرت ﷺ کے اتباع میں کامل نجات ہے۔

فتاوی رشیدیہ ( 1/170) میں ہے:

سوال: مولود شریف اور عرس کہ جس میں کوئی بات خلاف شرع نہ ہو جیسے کہ حضرت شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کیا کرتے تھے آپ کے نزدیک جائز ہے یا نہیں اور شاہ صاحب واقعی مولود اور عرس کرتے تھے یا نہیں؟

جواب : عقد مجلس مولود اگرچہ اس میں کوئی امر غیر مشروع نہ ہو مگر اہتمام و تداعی اس میں بھی موجود ہے لہٰذا اس زمانہ میں درست نہیں وعلی ہذا عرس کا جواب ہے بہت اشیاء ہیں کہ اول مباح تھیں پھر کسی وقت میں منع ہوگئیں مجلس عرس و مولود بھی ایسا ہی ہے۔

فتاوی رشیدیہ ( 1/171) میں ہے:

سوال: فیوض الحرمین میں شاہ ولی اللہ صاحب قدس سرہ فرماتے ہیں۔ وکنت قبل ذلک بمكة المعظمة فی مولد النبی صلی الله تعالیٰ عليه وسلم فی یوم ولادته والناس یصلون علی النبی  یذکرون ارهاصاته التی ظهر فی ولادته و مشاهده قبل بعثته فرایت انوارا سطعت دفعة واحدۃ لا اقول انی ادرکتها ببصر الجسد ولا اقول ادرکتها ببصر الروح فقط والله اعلم کیف کان الامر بین هذه و ذاک فتاملت تلک الانوار فوجدتها من قبل الملائكة الموکلین بامثال هذه المشاهد  و بامثال هذه المجالس ورایت یخالط انوار الملائكة انوار الرحمة

عبارت مذکورہ میں جواز و استحسان شرکت مجلس یوم ولادت و ذکر و قائع ولادت و مشاہدہ انوار ملائکہ  ثابت ہوتا ہے اور اس سے جواز مولود زمانہ پر حجت لائی جاتی ہے لہٰذا یہ حجت لانا ان کا درست ہے یا نہیں مع مطلب عبارت مذکورہ کے ارقام فرما دیں۔

جواب: فیوض الحرمین میں حاضری مولد النبی میں کہ مکان ولادت آپ علیہ السلام کے ہے لکھا ہے وہاں ہر روززیارت کے واسطے لوگ جاتے ہیں یوم ولادت میں بھی لوگ جمع تھے اور صلوۃ و ذکر کرتے تھے نہ وہاں تداعی سے اہتمام طلب کے تھے نہ کوئی مجلس تھی بلکہ وہاں لوگ خود بخود جمع ہو کر کوئی درود پڑھتا تھا کوئی ذکر معجزات کرتاتھا نہ کوئی شیرینی نہ چراغ نہ کچھ اور نفس ذکر کو کوئی منع نہیں کرتا فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔

فتاوی رشیدیہ ( 1/173) میں ہے:

جواب : اور حجت  قول و فعل ِمشائخ سے نہیں ہوتی بلکہ قول و فعل ِ شارع علیہ الصلوۃ والسلام سے  اور اقوال مجتہدین سے ہوتی ہے ۔ حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی قدس سرہ  فرماتے ہیں کہ جب ان کے پیر سلطان نظام الدین قدس  سرہ کے فعل کی حجت کوئی لاتا کہ وہ ایسا کرتے ہیں تم کیوں نہیں کرتے تو فرماتے ” فعل مشائخ حجت نباشد ” (مشائخ کا عمل حجت نہیں ) اور اس جواب کو حضرت سلطان الاولیاء بھی پسند فرماتے تھے لہذا جناب حاجی( امداد اللہ مہاجر مکی ؒ )  صاحب سلمہ اللہ کا ذکر کرنا سوالات شرعیہ میں بے جا ہے ۔

فتاوی عزیزی  (ص:93)  ميں ہے :

سوال: پختن طعام در ایام ربیع الاول برائے خدا ،و رسانیدن ثوابِ آں بروح پر فتوح حضرت سرور کائنات ﷺ و یا حضرت امام حسین علیہ السلام در  ایام محرم و دیگر آلِ اطہارِ سیدِ مختار صحیح است یا نہ؟

جواب:برائے ایں کار وقت و روز تعین نمودن ،و راہے تقرر کردن بدعت است سآرے اگروقتے بعمل آرند کہ در ایں ثواب زیادہ شود  مثل ماہ رمضان کہ عمل بندہ مومن ب ہفتاد درجہ ثواب زیادہ دارد مضائقہ نیست زیراکہ پیغمبر خدا ﷺ بران ترغیب فرمودہ اند بقول حضرت امیر المؤمنین علی  مرتضی ؓ ہر چیز کہ بران ترغیب  صاحب شرع و  تعین وقت نباشد آں فعل عبث است و مخالف سنت سید الانام ، و مخالف سنت حرام است ، پس ہرگز روا نباشد ۔

براہین قاطعہ(ص:7) مىں ہے :

قولہ  علی ہذا القیاس وہ اموات جومحزون ۔۔۔۔اقول  ایصال ثواب طعام و قراءۃ اموات کو کسی نے منع نہیں کیا اس با میں جو منع ہے تو اس طرح و ہیئت سے ایصال کو منع کرتے ہیں کہ  جس میں تشبہ بالکفار لازم آجاوے یا تقیید مطلق کی آ جاوے کہ یہ دونوں تمام امت کے نزدیک حرام و بدعت ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved