• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شرعاً بیوی سے علیحدگی اختیار کرنا

استفتاء

ایک پریشان کن معاملے میں علمائے کرام و مفتیان کرام سے شرعی رہنمائی چاہتا ہوں۔ تقریباً آٹھ سال پہلے میری پہلی شادی ہوئی۔ کچھ سال ہم نے خوش خرم گذارے، پھر میرے چھوٹے بھائی نے میری بیوی کی بہن کو کسی وجہ سے طلاق دے دی۔ اس کی وجہ سے پھر میری بیوی کو بہانہ سے بلا کر روک لیا۔ کئی سال کی کوششوں کے بعد بھی واپس کرنے پر تیار نہ ہوئے۔ تقریباً 2 سال واپسی کی کوششوں میں میں لاکھوں کا مقروض ہوگیا اور ہر معاملے میں میں بہت پیچھے چلا گیا۔ پہلی بیوی کے واپس نہ آنے کا دکھ آج بھی ہے اور شاید موت تک رہے۔

انہیں حالات میں تقریباً دو سال پہلے میری شادی ایک دیندار گھرانے کی مطلقہ سے ہوئی۔ مطلقہ سے نکاح اس لیے بہتر سمجھا کہ میں بھی بہت دکھ اٹھا چکا ہوں اور اس کے ساتھ بھی حادثہ ہوا ہے اور اب دونوں احتیاط سے رہیں گے، بقیہ زندگی کے جو دن ہیں وہ سکون سے گذریں۔ مگر بد قسمتی سے ایسا نہ ہوا۔ شروع میں میری بیوی نے میری اور میرے گھر والوں کے حسن سلوک کے بارے میں سب رشتہ داروں کو بتایا، میری بیوی کے الفاظ تھے کہ میں دنیا میں اب آئی ہوں اب میں نے دیکھا ہے کہ پیار کیا ہوتا ہے، میں نے اپنی سابقہ غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا۔ مگر چند ماہ گذرنے کے بعد محسوس کیا کہ مجھے میری نیکیوں یا اچھے سلوک کا صلہ ملا ہے نہ کبھی ملے گا۔ اس وقت کچھ بیوقوفیون کا تذکرہ  غیبت نہ ہو تو بتاتا چلو کہ سب سے زیادہ میرے لیے اذیت دینے والی چیز اس کا ضدی مزاج ہے ہر معاملے میں اور ہر موقع پر اس نے وہ کر گذرنا ہے جو اس کے دل میں آئے کسی بھی معاملے پر کسی بھی موقع پر اس نے میری چاہت کو نہیں دیکھنا، اطاعت اور فرمانبرداری کے الفاظ سے بھی ناواقف ہے۔ خوش اسلوبی سے چھوٹے سے چھوٹے کام کی بھی توقع نہیں کرسکتا، زبان دراز بھی ہے اور ناشکری بھی، اس دھرتی پر بسنے والے کروڑوں انسانوں سے بہتر کھاتے اور پہنتے ہیں، اس کے باوجود ہر وقت شکوہ شکایت زبان پر رہتا ہے اور اپنے رشتہ داروں میں میری بیوی نے میرا چہرہ بھوکے اور ننگے کا دکھایا ہے۔ میری اور میرے والدین کی ہر کمزوری کو وہ ہر جگہ بتاتی ہے اس کی وجہ سے میں اپنے سسرال رشتہ داروں سے ملنے سے کتراتا ہوں۔ میری کسی پردے والی بات کا پردہ نہیں رکھتی، سر سے پاؤں تک بیمار ہے، منہ سے السر کیوجہ سے شدید بدبو آتی ہے، پاس بیٹھنے بات کرنے پر بھی بدبو کی وجہ سے تکلیف ہوتی ہے، علاج کروانے کی کوشش کی مگر معالج جو پرہیز بتائے گا وہ نہیں کرے گی من پسند چیز اگرچہ وجود کے لیے نقصان دہ ہو چھپ کر کھا لے گی، دو سال سے اصلاح احوال کی کوشش میں ہوں مگر نتیجہ صفر ہے۔

میرے سسرال بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ میری بیوی بیوقوف ہے اور میرا رونا غلط نہیں ہے، مگر وہ چاہتے ہیں کہ وقت گذرتا رہے علیحدگی نہ ہو، کسی کو ناجائز پریشان کرنا میری تعلیم میں شامل نہیں ہے، میرے سسرال والے ہوں یا کوئی بھی جاندار، مگر میں بیوی کے ساتھ کسی بھی شرط پربھی رہنے کو تیار نہیں ہوں، مجھے صورت اور نیک سیرت کے علاوہ دنیا کی کسی چیز کا لالچ نہیں ہے مگر میری بدقسمتی ہے کہ دونوں چیزوں سے محروم ہوں آنے والے وقت سے خوف کھاتا ہوں۔ کہ صحت جوانی اور گود خالی ہے پھر بھی صبح شام اذیت کے ساتھ گذر رہے ہیں تو کل کو اگر بچہ ہوتا ہے تو پریشانی مزید بڑھ جائی گی، میں خود بیمار ہوں اور کچھ ان حالات کی وجہ سے بیمار ہوگیا ہوں، میں جب بھی سسرال گیا میری بیوی نے ہمیشہ مجھے بتایا کہ میری والدہ پوچھتی ہیں کہ ساجد کو کیا ہوگیا ہے یہ پہلے والا ساجد نہیں رہا، یہ سب میری بیوی کی وجہ سے ہے جس کی بیوقوفیوں کی وجہ سے  دن میں کئی  دفعہ مرتا اور کئی دفعہ جیتا ہوں، مجھے نئی سے نئی شادیاں رچانے کا شوق نہیں ہے مگر میں ازدواجی زندگی سے اتنا تنگ ہوں کہ ایسی بیوی سے اکیلا رہنے کو بہتر سمجھتا ہوں۔ میرے بعض سسرال رشتہ دار مجھے علیحدگی سے روکتے ہیں مگر میں مزید اکٹھا رہنے کو خود کشی خیال کرتا ہوں۔ دور نبوی میں تو لوگ دربار نبوی میں اپنا مسئلہ لے جاتے تھے وہ جو فیصلہ کرتے اس کو قبول کر لیتے تھے مگر اس کا متبادل تو اب علماء و مفتیان کرام ہیں، میں پوچھنا چاہتا ہوں شرعی راہنمائی لینا چاہتا ہوں کہ ان حالات میں میرا بیوی سے علیحدگی اختیار کرنا کیا ٹھیک نہیں ہے۔ میں اپنا سب کچھ بیوی کے نام تو کرسکتا ہوں مگر ساتھ رہنے کو کسی صورت تیار نہیں ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی سے علیحدگی اختیار کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ سائل کو اپنی صوابدید پر ہے، شرعاً دونوں باتوں کی گنجائش ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved