• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

شراب کے نشے کی حالت میں طلاق

  • فتوی نمبر: 10-169
  • تاریخ: 17 ستمبر 2017

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نے اپنی بیوی کو موٹر سائیکل پر بٹھایا اور میرج ہال لے کر آیا اور پھر میں نے میرج ہال میں شراب پی، شراب پیتے ہی نیچے آرہا تھا ادھر  سارے میری بیوی سے باتیں کرنے لگے  جس سے بیوی غصے ہو گئی اور مجھ سے الجھنے لگی تو میں نے اپنی بیوی کو دوبارہ موٹر سائیکل پر بٹھایا اور ہال کے قریب ہی راستے میں ہی چھوڑ کر آگیا اور سارے مہمان وغیرہ میرج ہال میں کھڑے تھے تو مجھ سے پوچھنے لگے کہ اس کو کہاں چھوڑ کر آیا ہے؟ میں نے کہہ دیا کہ میں اس کو چھوڑ آیا ہوں، میں اس کو طلاق دے آیا ہوں، میں اس کو طلاق دے آیا ہوں۔ یہ سب نشہ کی حالت میں کہا۔

میرا خیال یہ تھا کہ اگر میں ان کے سامنے ایسے الفاظ بولوں گا تو وہ جلدی سے فکر مند ہوں گے اور ہماری صلح کروا دیں گے، مگر انہوں نے پوچھا اسے کہاں چھوڑا ہے۔ میں نے کہا مجھے نہیں پتہ کہاں چھوڑ آیا ہوں۔ اتنے میں میری امی کہنے لگی اس کو اپنا پتہ نہیں کیا کہہ رہا ہے اس کی بات چھوڑو۔ مگر میرے ان لوگوں نے بجائے ہماری صلح کروانے کے میری بیوی کو اپنے ساتھ لے گئے اور میں اپنے گھر واپس آگیا۔ دو تین گھنٹے تک میں شراب کے نشے میں رہا۔ صبح امی نے مجھے کہا کہ رات تم نے کیا کیا؟ میں نے کہا: میں نے کیا کیا؟ کہنے لگی تو ایسے ایسے طلاق دے کر آیا ہے۔ میں نے کہا میرا دماغ خراب ہے میں دوں، میں تو ان کو اس لیے کہہ رہا تھا کہ وہ میری صلح کروا دیں گے۔اس کے بعد اسی دن میری سالی اسے میرے گھر چھوڑ گئی۔ ابھی تک وہ میرے گھر پر ہی ہے۔

نوٹ: سائل نے اس سے قبل اپنی کو زبانی یا تحریری کبھی طلاق نہیں دی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر کے ان الفاظ سے کہ ’’ میں اس کو طلاق دے آیا ہوں، میں اس کو طلاق دے آیا ہوں ‘‘ دو رجعی طلاقیں واقع ہو گئیں ہیں۔ جن کا حکم یہ ہے کہ طلاق کے بعد تین ماہواریاں گذرنے سے پہلے شوہر رجوع کر سکتا ہے اور تین ماہواریاں گذرنے کے بعد دونوں دوبارہ رضا مندی کے ساتھ نکاح کر سکتے ہیں۔  جس میں دو گواہ ضروری ہیں اور مہر بھی نیا مقرر ہو گا۔

نوٹ: شوہر کے پاس آئندہ کے لیے صرف ایک طلاق کا اختیار باقی رہ گیا۔

ہدایہ (2/405) میں ہے:

و إذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها.

فتاویٰ شامی (4/510) میں ہے:

كرر لفظ الطلاق وقع الكل. وقوله: (كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أو قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك …. و إذا قال: أنت طالق ثم قيل له ما قلت؟ فقال: قد طلقتها أو قلت: هي طالق فهي طالق واحدة، لأنه جواب.

فتاویٰ ہندیہ (2/56) میں ہے:

متى كرر لفظ الطلاق بحرف الواو أو بغير حرف الواو يتعدد الطلاق وإن عنى بالثاني الأول لم يصدق في القضاء كقوله يا مطلقة أنت طالق أو طلقتك أنت طالق ولو ذكر الثاني بحرف التفسير وهو حرف الفاء لا تقع أخرى إلا بالنية كقوله طلقتك فأنت طالق كذا في الظهيرية. ولو طلقها ثم قال لها طلاق دادمت تقع أخرى ولو قال طلاق داده است لا تقع أخرى. فقط و الله تعالى أعلم

 

[1] ۔ نوٹ: نشتہ کی صورت میں طلاق معتبر نہ ہونے کا اعتبار اس صورت میں ہے کہ جب کلام میں اختلاط و ہذیان غالب ہو۔ مذکورہ صورت میں شوہر کا نشہ اس درجہ کو پہنچا ہوا معلوم نہیں ہوتا کیونکہ طلاق کے الفاظ کا اسے علم بھی تھا اور تلفظ کا ارادہ بھی تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ طلاق دینا نہیں چاہتا تھا بلکہ اپنے رشتہ داروں کو تشویش میں مبتلا کرنا چاہتا تھا۔

فتاویٰ شامی (3/239) میں ہے:

أن المراد أن يكون غالب كلامه هذيان فلو نصفه مستقيماً فليس بسكر فيكون حكمه حكم الصحاة في إقراره بالحدود و غير ذلك

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک طلاق رجعی واقع ہوئی ہے ۔ پھر چونکہ میاں بیوی اکٹھے رہے ہیں اس لیے رجوع بھی ہو چکا ہے دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں۔ آئندہ دو طلاقوں کا حق باقی ہے۔

توجیہ: خاوند نے طلاق کے محتمل تین جملے بولے ہیں:

1۔ میں اسے چھوڑ آیا ہوں: یہ جملہ دلالت حال کے اعتبار سے طلاق کا نہیں ہے کیونکہ وہ یہاں چھوڑنا معنوی نہیں حسی مراد ہے جس کا واضح قرینہ موجود ہے۔

2۔ میں طلاق دے آیا ہوں: یہ اگرچہ اقرار ہے مگر چونکہ اس سے قبل طلاق کا انشاء نہیں اس لیے انشاء کو متضمن ہو گا اور ایک طلاق رجعی کا فائدہ دے گا۔

3۔ تیسرا جملہ اقرار ہے اور پیچھے طلاق موجود ہے لہذا اس کو خبر پر محمول کیا جائے گا۔ اور مزید طلاق نہ ہو گی۔

نوٹ: نشہ کی صورت میں طلاق معتبر نہ ہونے کا اعتبار اس صورت میں ہے کہ جب کلام میں اختلاط و ہذیان غالب ہو۔ مذکورہ صورت میں شوہر کا نشہ اس درجہ کو پہنچا ہوا معلوم نہیں ہوتا کیونکہ طلاق کے الفاظ کا اسے علم بھی تھا اور تلفظ کا ارادہ بھی تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ طلاق دینا نہیں چاہتا تھا بلکہ اپنے رشتہ داروں کو تشویش میں مبتلا کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

تبصرہ:

سابقہ جوب درست ہے، بظاہر یہ جواب درست نہیں۔ لما فی الشامیۃ:

كرر لفظ الطلاق وقع الكل. وقوله: (كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أو قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك …. و إذا قال: أنت طالق ثم قيل له ما قلت؟ فقال: قد طلقتها أو قلت: هي طالق فهي طالق واحدة، لأنه جواب. (4/510)                        

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved