• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

شرط سے معلق تفویض طلاق، اور عدالت سے خلع لینا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری ہمشیرہ جس کا نکاح نامہ ساتھ لف ہے، اس کا نکاح ندیم علی نامی لڑکے سے ہوا۔ یہ لڑکا پیشہ کے اعتبار سے اپنے آپ کو ڈرائیور بتا تاتھا۔ اس کے علاوہ میری ہمشیرہ سے نکاح ہونے سے پیشتر اس کا پہلے بھی ایک نکاح ہوا تھا، اور وہ تقریباً چھ ماہ چلا اور پھر اس نے کسی وجہ سے پہلی بیوی کو طلاق دیدی تھی۔ ہم نے اسی وجہ سے نکاح کرتے وقت اپنی ہمشیرہ کے لیے اپنے اساتذہ سے اور بڑوں سے مشورہ کر کے یہ شرائط رکھوائیں جو کہ نکاح نامہ میں ذکر ہیں۔ انہیں میں سے ایک شرط تفویض طلاق کی تھی۔ جس کے الفاظ اور عبارت بھی نکاح نامہ میں مذکور ہے۔ یہ نکاح چونکہ ہم نے حضرت  مولانا مفتی حسن صاحب دامت برکاتہم سے پڑھوانا چاہتے تھے، اس لیے ایک یا دو دن پہلے ہی نکاح نامہ ہمارے گھر میں پُر کیا گیا، اور نکاح نامہ لکھتے وقت اور پُر کرتے وقت جو لوگ موجود تھے ان میں میں، میرے والد صاحب *** دلہن کی طرف سے، جبکہ لڑکا*** خود  اور اس کے مقرر کردہ گواہ جن کا نام و پتہ نکاح نامہ میں درج ہے، اور نکاح رجسٹرار قاری***صاحب بھی موجود تھے۔ ان سب حضرات کی موجودگی میں یہ شرائط لکھی گئیں، اور پڑھ کر سنائی گئیں، اور دلہا اور اس کے گواہان کی رضا مندی کے ساتھ نکاح نامہ پر دستخط کروائے گئے۔

اس کے بعد اگلے دن جمعة المبارک کو نماز جمعہ کے بعد مفتی حسن صاحب دامت برکاتہم سے نکاح پڑھوایا گیا۔ اور نکاح میں مفتی صاحب نے جیسا کہ ان کا معمول ہے صرف حق مہر کے ذکر کے ساتھ نکاح پڑھا دیا، اور ان شرائط کا ذکر نہ کیا۔ شادی کے بعد کچھ عرصہ تقریباً دو یا تین مہینے تو وہ لڑکا ہمارے ساتھ ٹھیک رہا، میری ہمشیرہ کو بھی کوئی شکایت نہ تھی، مگر پھر اس نے یہ روش آنائی کہ میری ہمشیرہ کو اکثر کئی دن کے لیے ہمارے گھر چھوڑ جاتا، پھر خود بھی اس نے ہمارے گھر رہنا شروع کر دیا، اکثر رات ہمارے ہی گھر گذارنے لگا، رکشہ چلاتا تھا، مگر وہ بھی اس وقت جب ہم اس کو کہتے، تھوڑی دیر کے لیے چلا جاتا اور پھر آ جاتا، ہم برداشت کرتے رہے۔ پھر ہماری ہمشیرہ نے ہمیں ایک روز بتلایا کہ اس نے دو دفعہ میرا گلا دبانے کی بھی کوشش کی۔ اس پر ہمیں کافی غصہ آیا، اس کو بلا کر پوچھا تو مُکر گیا، اور الٹا ہم پر غصہ کرنے لگا، ہم نے یہ معاملہ چھوڑ دیا، اور اس کو صاف الفاظ میں کہا کہ کوئی کام کاج کرو، اور اپنا اور اپنی بیوی کا خرچہ خود اٹھایا کرو، اس وقت تو مان گیا، مگر تھوڑے عرصہ بعد پھر وہی روش اپنا لی، ہم نے اس کے خاندان والوں کو، بڑوں کو اپنے گھر بلایا، اور سب کے سامنے اسے بھی بلایا، اور کہا کہ اب ہم اپنی ہمشیرہ کو تبھی ساتھ بھیجیں گے جب کوئی کام کرے، بہر حال سب کی موجودگی میں معاملہ طے پا گیا، صلح ہو گئی، وہ اپنی بیوی کو لے گیا۔ پھر جب میری ہمشیرہ امید سے ہوئی تو ان کو پھر ہمارے گھر چھوڑ گیا، اور تقریباً چھ ماہ وہ ہمارے گھر رہی، مگر اس نے سوائے ایک دو بار کے پلٹ کر خبر نہ لی۔ نیز جو خرچہ ماہانہ تین ہزار روپیہ کے حساب سے مقرر  ہوا تھا وہ بھی اس نے شادی کے بعد سے کسی ایک ماہ میں بھی نہیں دیا۔ اپنی ہمشیرہ کا ڈلیوری سے چھ ماہ  پہلے اور بعد کا خرچہ سب ہم نے کیا۔  اس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی، تو ہسپتال میں آیا، تھوڑی دیر بیٹھا اور چلا گیا۔ پھر جب میری ہمشیرہ گھر آئی تو ایک دفعہ گھر ملنے آیا اور میری ہمشیرہ سے کسی بات پر غصہ ہوا، اور کچھ کہے بغیر چلا گیا۔ اس کے بعد سے میری بھانجی ایک سال کی ہو چکی ہے، اس ایک سال کے عرصہ میں اس نے نہ ہی ہم سے اور نہ ہی ہمشیرہ سے کوئی رابطہ کیا۔ ہم نے اس دوران اس صورت حال سے تنگ آ کر علیحدگی کروانے کا فیصلہ کیا، اور اپنی ہمشیرہ کی رضا مندی سے (کیونکہ وہ دو دفعہ گلا دبائے جانے کی وجہ سے شدید خوف کا شکار تھی) اس لڑکے سے کہلوایا کہ وہ طلاق دے دے، تو ہم پانچ لاکھ چھوڑ دیں گے، ورنہ ہم عدالت میں خلع کا کیس دائر کریں گے۔ اس نے طلاق دینے سے بھی انکار کیا اور کہا جاؤ عدالت سے خلع لے لو۔ ہم نے عدالت میں خلع کا کیس دائر کیا، وہ عدالت میں بھی حاضر نہ ہوا اور عدالت نے یکطرفہ پر خلع کا فیصلہ سنا دیا، مگر ابھی تک تفصیلی فیصلہ نہیں ملا۔ اب پتہ چلا کہ عدالتی خلع بھی معتبر نہیں ہے۔ اب آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ کیا ہم تفویض طلاق کا حق استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو آیا یہ عدالتی خلع معتبر ہو گی یا نہیں؟ اس کا شرعی حل بتائیے۔ اور اگر خلع ہو چکی ہے تو کیا وہ عدت گذاریں گی؟ جبکہ وہ ایک سال سے ہمارے ہی گھر ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر لڑکی کے والد اور بھائی طلاق کی ضرورت محسوس کر لیں تو لڑکی "حق تفویض” کو استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو ایک طلاق دے سکتی ہے۔ کیونکہ لڑکے نے جس شرط پر حقِ طلاق لڑکی کے سپرد کیا تھا یعنی یہ کہ "اگر میں *** ۔۔۔۔ سے نکاح کروں اور اس کے حقوق صحیح طرح ادا نہ کر سکوں ۔۔۔ تو*** کو اپنے اوپر طلاق ڈالنے کا اختیار ہو گا”، وہ شرط مذکورہ صورت میں موجود ہے۔ البتہ اس صورت میں صرف ایک رجعی طلاق واقع ہو گی۔ لہذا دوران عدت اگر لڑکے نے رجوع کر لیا تو یہ رجوع صحیح ہو گا۔ اور آئندہ کے لیے لڑکی کو اپنے اوپر طلاق واقع کرنے کا حق ختم ہو جائے گا۔

تفویضِ طلاق کا حق استعمال کرنے کی صورت میں عدت کی ابتداء لڑکی کے اپنے اوپر طلاق واقع کرنے کے بعد سے ہو گی۔

باقی رہی یہ بات کہ مذکورہ صورت میں عدالتی خلع معتبر ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب دو باتوں پر موقوف ہے:

(1) عدالتی خلع کے فیصلہ کی تفصیلی رپورٹ کی کاپی مہیا کی جائے۔

(2) عورت کے نان و نفقہ کا انتظام ہو سکتا ہے یا نہیں؟ مثلاً کوئی دوسرا شخص اس عورت کے نفقہ کا انتظام کرنے کے لیے تیار ہے یا نہیں؟ بصورت دیگر عورت حفظ و آبرو کے ساتھ کسب معاش پر قدرت رکھتی ہے یا نہیں؟ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved