- فتوی نمبر: 28-166
- تاریخ: 08 جنوری 2023
استفتاء
*** کی کچھ عرصہ قبل شادی ہوئی،اولاد بھی ہوئی پھر وہ کچھ عرصہ اپنے سسرال میں رہا ،اب اس کی بیوی سے علیحدگی ہوچکی ہے ،**** اپنی نقد رقم ،کچھ مال تجارت،کچھ استعمال کی اشیاء مثلا کپڑے وغیرہ اور کچھ خراب حالت الیکٹرانکس کی اشیاء یہیں چھوڑ گیا تھا ،بیوی نے عدالتی خلع لیا تھا ،جس پر عدالت نے بچوں کا ماہا نہ خرچ **** کے ذمہ لگایا تھا جو اس نے کبھی ادا نہ کیا ،اس کے بعد شوہر نے بذات خود تین طلاقیں بیوی کو دے دیں تھی ،اس وقت سے بچے نانا کے پاس رہ رہے ہیں اور انہوں نے ہی بچوں کا ماہانہ خرچ اٹھا رکھا ہے ،سب بچے چھوٹے ہی ہیں ابھی بچوں کی عمر تقریبا 4،5 سال ہے۔
خرچہ کی تفصیل:انہوں نے **** کا سامان فروخت کرکے اس کی رقم اور **** کی متروکہ نقد رقم کو اور م**** اپنی طرف سے کچھ پیسے شامل کرکے اس ساری رقم کو بچوں کے نام لگا کر اس کو کاروبار میں لگا رکھا ہے اور نفع بچوں پر خر چ ہوتا ہے ،البتہ کچھ کپڑے وغیرہ ضرورت مندوں کو دے دیے اور کچھ اشیاء اپنے استعمال میں ہیں۔
پوچھنا یہ ہے:
1۔اس مال اور اشیاء کا مالک کون ہے؟
2۔اس مال کی زکوۃ کس پر ہے؟
3۔**** کی متروکہ کچھ اشیاء جو اپنے استعمال میں ہیں ان کا کیا حکم ہے؟۔
4۔چونکہ عدالت کا عائد کردہ خرچ **** نے نہیں دیا تو انہوں نے **** ہی کے مال کو اپنے اوپر خرچ کیا ہے تو کیا وہ تبرع ہے یا **** کی نیابت میں ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ چونکہ مذکورہ صورت میں بچوں کی عمر چار پانچ سال ہے اور اس عمر میں بچوں پر خرچہ کرنا والد کی ذمہ داری ہے اس لیے اگرچہ اس مال میں سے بچوں پر خرچ کرنادرست ہے لیکن اصلا چونکہ وہ مال **** ہی کا ہے ، اس لیے وہ مال **** ہی کا کہلائے گا،او ر باقی جو مال اپنے پاس سے بچوں کے نام پر کاروبار میں لگایا ہے چونکہ وہ بچوں کی ملک میں دے دیا ہے اگرچہ سرپرستی کے طور پر اس کو نانا دیکھ رہے ہیں تو اس مال میں بالغ ہونے تک بچوں پر زکوۃ نہیں آئے گی۔
2۔ جس قدر مال **** کا ہےاس تناسب سے مال کی زکوۃ بھی **** کے ہی ذمہ ہے ،لیکن یہ یاد رکھیں کہ جب بچے اپنا خرچہ خود ہی اٹھانے لگ جائیں گے تو **** کا مال اس کو واپس کرنا ضروری ہوگا الا یہ کہ وہ سارا مال بچوں پر خرچ ہوجائے۔
3۔چونکہ وہ چیزیں **** کی ہیں اس لیے **** کو واپس کی جائیں یا ان سے استعمال کی اجازت لے لی جائے۔
4۔**** کی نیابت میں۔
فتاوی ہندیہ(1/560)میں ہے:
نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة
فتاوی ہندیہ(1/560)میں ہے:
وبعد الفطام يفرض القاضي نفقة الصغار على قدر طاقة الأب وتدفع إلى الأم حتى تنفق على الأولاد، فإن لم تكن الأم ثقة تدفع إلى غيرها لينفق على الولد
فتاوی ہندیہ(1/562)میں ہے:
الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب، ولم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا، أو يؤاجرهم وينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، وأما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل، أو خدمة كذا في الخلاصة
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved