• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

سکھوں کے گردوارے کی طرف سفر کرنا

استفتاء

کیا کسی مسلمان کا سکھوں کے گردوارے کی طرف سفر کرنا جائز ہے ؟زیارت کی نیت سے یا سیر وسیاحت کی نیت سے، کچھ سکو ل اپنے بچوں کے ٹرپ لے کرکرتار پور گوردوارے کی سیاحت کے لیے جا رہے ہیں ۔

شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

کافروں کے مذہبی مقامات شیاطین کے جمع ہونے کی جگہیں  ہوتیں ہیں ایسی جگہوں پر مجبوری کے بغیر جانا جائز نہیں ۔ سیر و سیاحت کوئی ایسی مجبوری نہیں کہ جس کےلیے ایسے مقامات کی طرف سفر کیا جائے۔

فتاوی شامی ٢/٥٣میں ہے:

يكره للمسلم الدخول في البيعة  والكنيسة وانما يكره من حيث انه مجمع الشياطين لا من حيث انه ليس له حق الدخول اه‍ قال في (البحر) والظاهر انها تحريمة لانها المرادة عند اطلاقهم وقد افتيت بتعزير مسلم لازم الكنيسة مع اليهود

فتاوی عالمگیری٩/١٥٨ میں ہے:

يكره لمسلم الدخول في البيعة  والكنيسة وانما يكره من حيث انه مجمع الشياطين لا من حيث انه ليس له حق الدخول كذا في التاتارخانية

روح المعانی 10/479میں ہے:

قال تبارك و تعالى ولا تصل على احد منهم مات ابدا ولا تقم على قبره (التوبه) قال في روح المعاني والمراد لا تقف عند قبره و لالدفن أو لزيارة

’’امداد الفتاوی(4/229)میں ہے:

سوال:میلہ پر ستش گاہِ ہنودان میں مسلمان کا جانا اور خصوصاً عالم وواعظ کاجانا بطریق سَیر کے اور اس کو جائز سمجھنا اور استنا دآیت: قُلْ سِیْرُوْا فِی الاَرضِ سے لانا کیسا ہے؟

الجواب:میلہ پرستش گاہِ ہنود میں عموماً مسلمانوں کا جانا اور خصوصاً علماء کا جانا اور یہ بھی نہیں کہ کوئی ضرورت شدیدہ دنیاوی ہی ہو محض سیر و تماشے کے لئے سخت ممنوع و قبیح ہے ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved