• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

سوسائٹی والوں کا مسجد و مدرسہ کو گرا کر اس کی جگہ پلازہ بنانا

استفتاء

عرصہ تقریباً 60 سال سے ایک جگہ ماڈل ٹاؤن موڑ پر ایک مسجد اور مدرسہ قائم ہے جو سڑک کی توسیع اور رفاہ عامہ کے کسی کام کی راہ میں حائل نہیں ہے۔ اب ماڈل ٹاؤن سوسائٹی اور چند لوگ پلازہ اور مارکیٹ وغیرہ بنانے کے لیے مسجد کو شہید کرنا چاہتے ہیں اور متبادل جگہ موجودہ مسجد 22 مرلے کی بجائے دو کنال پر مسجد بنا کر دے رہے ہیں۔ کیا ان مقاصد کے لیے مسجد کو شہید کرنا جائز ہے؟ شریعت کی رو سے اس جگہ کی کیا حیثیت ہو گی؟ شریعت کی رو سے مکمل رہنمائی فرمائیں، اور اگر ہم ان کے مقاصد سے روکنے کی طاقت نہیں رکھتے اور سارے فتاویٰ ان کو دکھا دیے گئے ہیں مگر وہ ان سب کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور مسجد کے ساتھ موجودہ دکانیں ہائی کورٹ  کے سٹے کے باوجود گرا دی گئی، اس ہائی کورٹ کا سٹے آڈر بھی ان کو روک نہیں سکا۔

1۔ اس صورت میں ہمارے لیے کیا حکم ہے؟

2۔ اور شریعت کی رو سے متبادل جگہ پر مسجد تعمیر کرنے کی گنجائش ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ہمارے دار الافتاء و التحقیق کی طرف سے اصل مسئلے سے متعلق فتویٰ پہلے دیا جا چکا ہے، ضلع کچہری کی حدود میں ایک مسجد تھی، 5 سال پہلے کی بات ہے، انتظامیہ نے بڑا زور لگایا لیکن وہاں کے لوگوں نے کیس کیا اور مقدمہ جب ان کے حق میں ہوا تو انتظامیہ کو سابقہ جگہ پر ہی نئی ڈیزائننگ کے ساتھ مسجد کو بنانا پڑا۔ قانونی چارہ جوئی کے لیے آپ لوگوں کے پاس عدالت کے قانونی

فیصلہ کی یہ بڑی دلیل ہے، کچھ حضرات کو میں نے یہ زبانی بتایا تو ان کے حق میں مفید ثابت ہوا۔

ماڈل ٹاؤن کی انتظامیہ بہر حال مسلمان ہے لیکن وہ لوگ یہ چاہتے ہوں گے کہ علاقے کا out look اچھا لگے اور شاید یہ بھی خیال کرتے ہوں گے کہ مسجد و مدرسہ کو پیچھے رکھا جائے تب ہی خوبصورتی پیدا ہو گی۔ زیر بحث صورت میں موجود مسجد و مدرسہ کی جگہ پر پلازہ بنانے سے وہ جگہ بہت قیمتی اور پر کشش بن جائے گی، خالص دینوی اعتبار سے تو یہ بات ایسی ہی نظر آئے گی لیکن اگر اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے حکم کو سامنے رکھیں تو قیمت و کشش کے پیمانے مختلف نظر آئیں گے۔ سچا مسلمان تو وہی ہے جو اپنی ذاتی عقل پر دین کے حکم کو غالب رکھے۔

آج کل کے دور میں بہت سے مسلمان فتوے کو اہمیت نہیں دیتے اور یوں کہتے ہیں کہ فتوے کی کیا بات ہے جس سے جو چاہے فتوی لے لو۔ لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ بات یہ نہیں ہے کہ فتویٰ کیا دیا گیا ہے فکر کی بات یہ ہے جس معاملہ میں فتویٰ لیا یا دیا گیا ہے اس کی مخالفت میں ہمارے پاس کیا دلیل ہے۔ سب مسلمان قرآن و سنت کو مانتے ہیں اور اہل علم ان کی علمی باریکیوں میں بھی غور کرتے ہیں تو زیر بحث مسئلے میں جو مخالفت کر رہے ہیں وہ اپنے مؤقف کو قرآن و سنت سے ثابت کریں تاکہ مسلمانوں کے اتفاق سے کام چلے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved