• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

سٹائلش بال کٹوانے کےجواز کے متعلق دارالعلوم کافتوی اورہماری رائے

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

حضرت مفتی صاحب !یہ فتوی دارالعلوم کراچی سے جاری ہوا ہے اس کی تحریر اس خطے میں موجود ہے اس فتوے کے متعلق سوال یہ ہے کہ اسٹائلش بال کٹوانا جائز ہے جو مردوں سے نہ ملتے ہوں؟اورکیایہ فتوی درست ہے؟فتوی کی عبارت درج ذیل ہے:

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

خواتین کے لیے اپنے سر کےبال کاٹنا  نہ بالکل ممنوع ہے اور نہ بالکل جائز ہے بلکہ اس میں کچھ تفصیل ہےوہ یہ کہ اگر کوئی خاتون فیشن  کے طور پراس قدر  بال کٹوائے  کہ مردوں کی مشابہت پائی جائے تو ا س طرح بال کٹوانا جائز نہیں ہے ، اور اگر اس  کے بال  دو منہ کے ہوگئے  ہوں اور  اس کی وجہ سے بالوں  کی افزائش رک  گئی ہوتو افزائش  رک گئی ہوتو افزائش  کی نیت سے بالوں  کے سروں  کو کسی قدر کاٹ لینے کی اجازت  ہے ۔

اسی طرح خواتین  کے لیے  setting  کی نیت سے  ضرورت  کے وقت  اپنے سر کے بالو ں کو معمولی  سے کتروانا درست ہے ، لیکن اس بات کا خیال رکھنا نہایت ضروری  ہے  کہ ا س میں کسی  بھی قسم کی ممنوع مشابہت  نہ پائی جائے اور نہ سیٹنگ  کسی ممنوع مشابہت  کی نیت سے ہو۔ نیز مردوں  کی مشابہت کی حد سے نکلنے کے لیے ضروری  ہے کہ خواتین کے بال کندھوں سے نیچے ہوں ۔ا سی طرح  کفار اور  فاسقات  کی مشابہت کی نیت سے  بال کٹوانا  بھی درست نہیں ہے ۔  ( ماخذہ التبویب  )ْ

چنانچہ حدیث پاک میں ہے :

لعن الله المتشبهين من الرجال بالنساء بالرجال

ترجمہ : اللہ تعالیٰ لعنت بھیجتے ہیں ان مردوں  پر جو عورتوں  کے ساتھ مشابہتا ختیار  رکھتے ہیں ، اور اللہ تعالیٰ لعنت بھیجتے ہیں ان  عورتوں پر  جو مردوں  کے ساتھ  مشابہت رکھتی ہیں ۔

اور ایک دوسری حدیث میں فرمایا گیا کہ :

من تشبه بقوم فهومنهم

ترجمہ : جو جس قوم کے ساتھ مشابہت ا ختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہے ۔

لہذا اگر خواتین  کے اپنے سر  کے بال کاندھے  کی ہڈی  سے نیچے نیچے  بغرض  ڈیزائن کٹوائیں  یا ماتھے  پر گرنے والے بال معمولی  کٹوائيں  اور ا س میں مردوں  کی یا کفار وفاسقات  کی مشابہت  نہ پائی جاتی ہو تو ا سکی گنجائش معلوم ہوتی ہے  ۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (13/ 96)

 عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما قال قال رسول الله من تشبه بقوم أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار فهو منهم أي في الإثم والخير قال الطيبي هذا عام في الخلق والخلق والشعار ولما كان الشعار أظهر في الشبه ذكر في هذا الباب

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ہمیں اس فتوے سے اتفاق نہیں ۔

2۔عورت کےلیے عام حالات میں بال کاٹناجائز نہیں خواہ سٹینگ کی نیت سے ہی ہو۔ہاں اگربال دوشاخے ہوجائیں تو جہاں سے پھٹےہوں وہں سے کاٹ سکتے ہیں ۔اسی طرح اگرعام معمول(نارمل رینج)سے زیادہ ہوجائیں تب بھی نارمل رینج تک کاٹناجائز ہے۔نارمل رینج سرین تک ہے اس سے زیادہ نارمل رینج سے باہر ہے۔

وتمنع من حلق رأسهاوفي الحموي:وتمنع عن حلق رأسها اي حلق شعررأسها اقول ذکرالعلائي في کراهته انه لاباس للمرأة ان تحلق رأسها لعذر مرض ووجع وبغيرعذر لايجوز المراد بلابأس ههنا الاباحة لاترک مافعله اولي والظاهر ان المراد بحلق شعررأسها ازالته سواءکان بحلق او قص اونتف اونورة فيلحرروالمراد بعدم الجواز کراهة التحريم کما في مفتاح السعادة ولو حلقت فان فعلت ذلک تشبها بالرجال فهو مکروه لانها ملعونة(الاشباه مع الحموي:3/73)

وفي طحطاوي علي الدر:قطعت شعررأسها اثمت ولعنت…..والمعني المؤثر التشبه بالرجال (قوله اثمت)محمول علي مااذاقصدت التشبه بالرجال وان کان لوجع اصابها فلابأس به کذا في الهندية عن الکبري ويدل علي هذاالتقييد المعني الذي ذکره (4/203)

وفي الشامية:وفيه قطعت شعر رأسها أثمت ولعنت…. والمعنى المؤثر التشبه بالرجال اه. قوله ( والمعنى المؤثر ) أي العلة المؤثرة في إثمها التشبه بالرجال فإنه لا يجوز كالتشبه بالنساء(9/498)

امدادالفتاوی(4/227)میں ہے:

’’….سوال یہ ہے کہ کیا عورتوں کےلیے بال کٹانے اوروفرہ کی مثل بنانے جائز ہیں یا نہیں؟

جواب:اس وضع مسئولہ عنہ کی حرمت پر دلائل صحیحہ قائم ہیں اورجواز کی دلیل میں چند احتمالات ہیں اس لیے حرمت ثابت اورجواز پر استدلال فاسد ،امراول کابیان یہ ہے کہ مبنی اس وضع کایقیناً تشبہ بنساء الکفار ہے جو اہل وضع کو مقصود بھی ہے۔۔۔۔اوراطلاق دلائل سے یہ تشبہ ہرحال میں حرام ہے خواہ اس کاقصد ہویا نہ ہو…..‘‘

بوادرالنوادر(ص:372)میں ہے:

وفی الاشباه احکام الانثي :قوله وتمنع من حلق رأسها اي حلق شعررأسها والظاهر ان المراد بحلق شعررأسها ازالته سواءکان بحلق او قص اونتف اونورة. …وعن علي رضي الله عنه قال نهي رسول اللهﷺ ان تحلق المرأة رأسها رواه النسائي

قلت:والحلق عام للقص ايضا کما ذکر(اي في عبارة الاشباه في قوله المراد بحلق رأسها ازالته سواء کان بحلق او قص اونتف اونورة الخ از ناقل)فشمله الحديث….

اور جووضع نصامنہی عنہ ہے اس کو معلل بعلت تشبہ کہنا بلادلیل ہوگا اس لیے وہ علی الاطلاق منہی عنہ ہوگی خواہ اس میں تشبہ ہویا نہ ہو کالحلق بالمعنی العام او بالمعنی الخاص ،اور جو نصامنہی عنہ نہ ہو گی اس کا حکم تشبہ پر دائر ہوگا۔

فتاوی رحیمیہ (10/119)میں ہے:

(سوال  ۱۴۶)  میری بارہ سالہ بچی کے بال بہت لمبے اور گھنے ہیں  جو سرین تک پہنچتے ہیں  ، بالوں  کو دھونا اور صاف رکھنا اس کے لئے مشکل ہے ، جوئیں  پڑنے کا اندیشہ ہے ، ایسی صورت میں  بالوں  کی لمبائی قدرے کم کر دی جائے تو لڑکی بآسانی اپنے بالوں  کو سنبھال سکے گی ، تو قدرے بال کٹوا دینا شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟ بینوا توجروا۔(الجواب)گھنے اور لمبے بال عورتوں  اور بیچیوں  کے لئے باعث زینت ہیں  آسمانوں  پر فرشتوں  کی تسبیح ہے سبحان من زین الرجال باللحی و وزین النساء بالذوائب ۔ پاک ہے وہ ذات جس نے مردوں  کو داڑھی سے زینت بخشی اور عورتوں  کو لٹوں  اور چوٹیوں  سے (روح البیان ص ۲۲۲ ج۱ بحوالہ فتاویٰ رحیمیہ ۶/۲۴۰ (جدیدترتیب کے مطابق اسی باب میں ، داڑھی کا وجوب اور ملازمت کی وجہ سے اس کا منڈوانا ، کے عنوان کے تحت ملاحظہ کیا جائے۔مرتب)لہذا بالوں  کو چھوٹا نہ کیا جائے البتہ اتنے بڑے ہوں  کہ سرین سے بھی نیچے ہوجائیں  اور عیب دار معلوم ہونے لگیں  تو سرین سے) نیچے والے حصہ کے بالوں  کو کاٹا جاسکتا ہے ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved