• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

سورہ فاتحہ کے منظوم ترجمہ کے بارے میں

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سورہ فاتحہ کے منسلکہ "منظوم ترجمہ” کو "بطور ترجمے” کے یا صرف "بطور حمد” کے اسکولوں کی اسمبلیوں میں رائج کرنا کیسا ہے؟

منظوم ترجمہ

سورة الفاتحہ منظوم ترجمہ سورة الفاتحہ

 

الحمد لله رب العلمين تہی ہے سزا وارِ حمد وثنا
تہی ہے تمامی جہانوں کا رب
الرحمن الرحيم نہایت شفیق و مہربان بھی
ملك يوم الدين تو مالک ہے روزِ جزا و سزا
اياك نعبد و اياك نستعين عبادت بھی تیری ہی کرتے ہیں ہم
مدد کے تجھی سے طلب گار ہیں
اهدنا الصراط المستقيم ہمیں سیدھے رستے پہ ان کے چلا
صراط الذين انعمت عليهم کہ جن پر ہوا تیرا لطف و کرم
غير المغضوب عليهم و لا الضالين نہ جن پر ہوا تیرا غیظ و غضب
نہ وہ سیدھے رستے سے گمراہ ہوئے
آمين اے مولا میرے کاش ایسا ہی ہو

 

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔  سورہ فاتحہ کے اس "منظوم ترجمہ” کو بطور سورہ فاتحہ کے ترجمہ کے اسکولوں کی اسمبلیوں میں رائج کرنا جائز نہیں۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں:

i۔  خود یہ ترجمہ بعض جگہوں میں درست نہیں۔ مثلاً (1) تہی ہے سزاوار حمد و ثناء (2) تہی ہے تمامی جہانوں کا رب (3) تو مالک ہے روز جزا و سزا۔ ان تین اشعار میں سے پہلے دو شعروں میں لفظ "تہی” اور تیسرے شعر میں لفظ  "تو” سورہ فاتحہ کے کسی لفظ کا ترجمہ نہیں ۔

ii۔ اگر یہ ترجمہ درست بھی ہو تو پھر بھی قرآن پاک کا ترجمہ نظم میں کرنا جائز نہیں ۔کیونکہ نظم میں ترجمہ کرنے میں متعدد خرابیاں ہیں۔ مثلاً (۱) ایک خرابی یہ ہے کہ منظوم ترجمہ کرنے میں ترجمہ بعینہ محفوظ نہیں رہ سکتا ۔ضرورت شعری اور وزن شعر کو برقرار رکھنے کیلیے ضرور کمی بیشی کرنی پڑتی ہے ۔(۲) دوسری خرابی یہ ہے کہ جب ضرورت شعری یا وزن  کو برقرار رکھنے کے لیے کمی بیشی لا بدی ہے تو لا محالہ اس کمی زیادتی کو بھی ترجمہ ہی سمجھا جائے گا جو کہ ناجائز ہے۔

2۔ اسی طرح بطور "حمد” کے بھی اس ترجمے کو اسی حالت میں رائج کرنا درست نہیں۔ کیونکہ موجودہ حالت میں تقریباً ہر شخص اس کو سورہ فاتحہ کا ترجمہ ہی سمجھے گا۔ لہذا اس "منظوم ترجمہ” کو موجودہ حالت میں بطور حمد کے بھی رائج کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ البتہ اگر اس "منظوم ترجمہ” کے الفاظ میں ایسا ردّو بدل کر دیا جائے کہ اس "منظوم کلام” کے سورہ فاتحہ کا ترجمہ ہونے کا وہم پیدا نہ ہو، تو پھر اسے بطور "حمد” کے رائج کر سکتے ہیں۔

تفصیل کے لیے دیکھیے "امداد الفتاویٰ: 4/ 53″۔ فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved