- فتوی نمبر: 278
- تاریخ: 11 فروری 2017
- عنوانات: اہم سوالات
استفتاء
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ ہمارے علاقے راجگڑھ میں بیت النجات نام کی ایک مسجد ہے جو مسلک اہل سنت والجماعت دیوبند سے ہے۔ اس میں فجر کی نماز ادا ہو جانے کے بعد جب سورج نکلنے میں پندرہ منٹ رہ جاتے ہیں تو لاؤڈ اسپیکر پر یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ’’حضرات سورج نکلنے میں پندرہ منٹ رہ گئے ہیں‘‘۔ میں نے مسجد انتظامیہ سے سوال کیا کہ یہ اعلان کیوں کیا جاتا ہے؟ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ اعلان اس لیے کیا جاتا ہے کہ جو نمازی فجر کی نماز ادا نہیں کر سکے وہ اپنی نمازیں پڑھ لیں۔ کیونکہ اس اعلان سے جن لوگوں کی نماز فجر رہ گئی ہے وہ پڑھ لیں گے تو بڑا ثواب ملتا ہے۔
کیا ایسا کرنا درست ہے؟ براہ کرم شرعی اصولوں کے مطابق جواب دے کر مشکور فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ طریقے سے اعلان کرنا جائز نہیں ہے۔
توجیہ: اگرچہ بعض فقہائے کرام نے مختلف وجوہات کے پیش نظر تثویب (یعنی اذان و اقامت کے درمیان نماز کی طرف توجہ دلانے کے لیے کوئی جملہ بلند آواز سے کہنے ) کی اجازت دی ہے لیکن اول تو تثویب کا ثبوت سنت سے ثابت نہیں ہے اسی وجہ سے
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایسے مؤذن کو بدعتی کہا جس نے تثویب کہی۔چنانچہ جامع الترمذی (1/ 148) میں ہے:
وروي عن مجاهد قال: دخلت مع عبد الله بن عمر مسجداً وقد أذن فيه ونحن نريد أن نصلي فيه، فثوب المؤذن، فخرج عبد الله بن عمر من المسجد وقال: أخرج بنا من عند هذا المبتدع، ولم يصل فيه. وإنما كره عبد الله بن عمر التثويب الذي أحدثه الناس بعده.
(ترجمہ: مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے فرماتے ہیں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ ایک مسجد میں داخل ہوا جہاں اذان دی جا چکی تھی اورہمارا ارادہ اسی مسجد میں نماز پڑھنے کا تھا۔ اچانک مؤذن نے تثویب کہی، ابن عمر رضی اللہ عنہ مسجد سے نکل گئے، کہا کہ مجھے اس بدعتی کے پاس سے لے چلو اور وہاں نماز ادا نہیں کی۔ ابن عمر رضی اللہ کو وہ تثویب ناگوار گذری جس کو لوگوں نے بعد میں ایجاد کیا)۔
اور دوسرے جن وجوہات کے پیش نظر بعض فقہائے کرام نے تثویب کی اجازت دی تھی، موجودہ دور میں تقریباً وہ مفقود ہیں۔ اور توجہ دلانے کے لیے اتنے ذرائع موجود ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے مزید توجہ دلانے کی ضرورت باتی نہیں رہتی۔ مثلاً اذانوں کا لاؤڈ اسپیکر پر ہونا اور عموماً مساجد کا قریب قریب ہونا، پھر خود لوگوں کے پاس گھڑی و موبائل وغیرہ میں نماز کے وقت کے لیے الارم لگانے کی سہولیات کا دستیاب ہونا، نمازوں کے اوقات کا متعین ہونا اور وقت معلوم کرنے کے لیے گھڑیوں کا ہونا وغیرہ وغیرہ۔
اور تیسرے جس تثویب کی بعض فقہائے کرام نے اجازت دی تھی وہ اذان اور اقامت کے درمیان ہوتی تھی، نہ کہ نماز کے بعد۔ جبکہ سوال میں جو صورت ذکر کی گئی ہے اس میں یہ اعلان نماز کے بعد کیا جاتا ہے۔
فتاویٰ شامی (2/ 69) میں ہے:
قال في العناية: أحدث المتأخرون التثويب بين الأذان والإقامة على حسب ما تعارفوه في جميع الصلوات سوى المغرب مع إبقاء الأول يعني الأصل وهو تثويب الفجر، وما رآه المسلمون حسناً فهو عند الله حسن. قوله (للكل) أي كل أحد، وخصه أبو يوسف رحمه الله بمن يشتغل بمصالح العامة كالقاضي والمفتي والمدرس، واختار ”الصلاة الصلاة“، ولو أحدثوا إعلاماً مخالفاً لذلك جاز.
بدائع الصنائع (1/ 168) میں ہے:
أما التثويب المحدث فمحله صلاة الفجر أيضاً ووقته ما بين الأذان والإقامة وتفسيره أن يقول: ”حي على الصلاة حي على الفلاح“ على ما بين في الجامع الصغير غير أن مشائخنا قالوا لا بأس بالتثويب المحدث في سائر الصلوات لفرط غلبة الغفلة على الناس في زماننا، وشدة ركونهم، فكان زيادة الإعلان من باب التعاون والتقوى فكان حسناً مستحسناً.
فتاویٰ محمودیہ (5/ 499) میں ہے:
’’سوال: دار العلوم میں اذان اسپیکر پر ہوتی ہے بعض لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ اذان کے بعد نماز سے چند منٹ پہلے اعلان بھی کر لیا جائے، اس میں کوئی کراہت یا بدعت تو نہیں؟ مع حوالہ درج کریں۔
جواب: ان حالات میں پندرہ منٹ پہلے ’’نماز تیار ہے‘‘ کا اعلان کرنا گویا اذان کو غیر معتبر قرار دینا ہے۔ جن عوارض کے
تحت تثویب کی گنجائش دی گئی ہے وہ یہاں موجود نہیں۔‘‘
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب لکھتے ہیں:
’’ہمارے زمانہ کا تجربہ ہے کہ عموماً اس قسم کی تثویب رفتہ رفتہ بدعت اور احداث فی الدین کا باعث بن جاتی ہے، جس کے دل میں نماز کی اہمیت ہوتی ہے وہ اس کے بغیر بھی نماز پڑھ لیتے ہیں اور جن کوتاہ ہمت کم نصیب لوگوں کو اذان کی اثر انگیزیاں متوجہ نہیں کر پائے تو کون سی چیز ہے جو ان کو متوجہ کر سکے، اس لیے تثویب سے احتراز کرنا اور ایسی کوئی بنیاد قائم نہ کرنا ہی بہتر ہے اور بدعت کے سد باب کے پیش نظر ضروری ہے۔‘‘
فتاویٰ دار العلوم دیوبند(1/ 198) میں ہے:
’’سوال: بعض دیہات وقصبات میں نماز عشاء کے اور جمعہ کے قبل ’’الصلاۃ‘‘ کہنا سنت ہے تو رائج کیوں نہیں، متروک کیوں ہے؟
جواب: یہ تثویب ہے جس کو بضرورت رکھا گیا تھا۔ اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے خاص قاضی وغیرہ کے لیے اس اطلاع کو جائز رکھا تھا، کہ یہ لوگ مسلمانوں کے کاموں میں مشغول ہوتے ہیں ان کو دوبارہ اطلاع کی ضرورت ہے۔
وخصه أبو يوسف بمن يشتغل بمصالح العامة كالقاضي والمفتي والمدرس واختاره قاضيخان.
پس اب یہ قصدہی نہیں لہذا تثویب بھی متروک ہو گئی۔‘‘۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved