• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

(1)قرآن  کریم کے پارے تقسیم کر کے اپنے اپنےگھر میں تلاوت کرنے کا حکم  (2)قرآن کریم مکمل  کرکے ختم دلوانے کا حکم

استفتاء

1-ہم سب  لیڈیز فیملی میں قرآن کے پارے بانٹ لیتی ہیں کوئی دو پارے پڑھتی ہے کوئی چار پارے پڑھتی ہے سب اپنے اپنے گھر پڑھتی ہیں

2-جب پڑھ لیتی ہیں تو ختم دلواتی  ہیں  کیا ایسے قرآن پڑھنا صحیح ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1-مذکورہ طریقے کے مطابق  قرآن کریم کی تلاوت کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس کے لیے نہ تو تداعی  کی گئی ہو اور نہ ہی کسی بدعت کا ارتکاب ہو۔

2-ليكن قرآن ختم كر کے ختم دلوانا  درست  نہیں۔

فتاوی شامی (4/12)میں ہے؛

"(الاصل ان كل من اتى بعبادة ما له جعل ثوابه لغيره) مطلب في إهداء ثواب الأعمال للغير  قوله ( بعبادة ما ) أي سواء كانت صلاة أو صوما أو صدقة أو قراءة أو ذكرا أو طوافا أو حجا أو عمرة أو غير ذلك”

فتاوی شامی (2/ 240)میں ہے:

"وفي البزازية ويكره ……واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص  والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره ۔”

فتاوی سمرقندیہ(155) میں ہے:

قراءة الفاتحه والاخلاص والكافرون على الطعام بدعة.

مسائل بہشتی زیور (2/448)میں ہے:

 تنبیہ :کسی جائز وجہ سے اگر لوگ جمع ہو ں مثلا فرض نماز کیلئے مسجد میں جمع ہو ں یا تعلیم کے لیے طلبہ جمع ہو ں یا گھر کے افراد جمع ہو ں اور وہ مل کر ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی کریں تو یہ جائز ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ الگ الگ کمروں میں پڑھیں تاکہ خاص قرآن خوانی کی غرض سے لوگوں کو جمع کرنے والوں کی ظاہری صورت میں بھی تائید نہ ہو۔

فقہی مضامین )ص157( میں ہے:

خلاصہ یہ ہے کہ :

(1)ایصال ثواب کے لئے وہ اجتماع جو اہل میت کے پاس ہو خواہ جب بھی ہو اور کہیں بھی ہو بالااتفاق ناجائز اور مکروہ ہے۔

(2)ایصال ثواب کے لئے وہ اجتماع جو اہل میت  کے پاس نہ ہو لیکن اس کے لیے تداعی کی گئی ہو یہ بھی بالاتفاق ناجائز ہے۔

کفایت المفتی مفتی(1/270) میں ہے:

چہلم اورمروجہ دودھ پریاکھانےپرفاتحہ دلانابےاصل بدعت ہے۔

فتاوی محمودیہ (3/60)میں ہے:

سوال :فاتحہ مروجہ حال یعنی کھانا ،مٹھائی سامنے رکھ کر قرآن کی کچھ آیتیں یا سورتیں پڑھ کراس کھانے اور قرآن کا ثواب میت کو پہنچاتے ہیں اور اس طریقے سے نہ کرائیں   تو ان کی سمجھ میں ثواب نہیں پہنچتا اور تیجہ ،دسواں ،بیسواں ،چالیسواں وغیرہ کرتے ہیں اور اس کو ضروری سمجھتے ہیں اگر کوئی اس طریقے کو منع کرے تو اس کو وہابی کہتے ہیں کیا یہ طریقہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ،تابعین اور خاص کر امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ سے ثابت ہے؟ اگر ہے تو ان کی کس کتاب میں  ہے ؟مع جلد وصفحہ  تحریر فرمائیں

الجواب حامدا ومصلیا :بلا التزام تاریخ و مہینہ وغیرہ کے نفس  ثواب پہنچانا قرآن کریم پڑھ کر، نماز پڑھ کر، روزہ رکھ کر غرباءو مساکین کو کھانا کھلا کر ،کپڑا وغیرہ دے کر بلا شبہ بہتر و مستحسن ہے شریعت کے نزدیک پسندیدہ ہے حدیث وفقہ سے ثابت ہے لیکن فاتحہ مروجہ تیجہ،دسواں ،بیسواں ،چالیسواں یہ سب چیزیں شرعا بے اصل ہیں  اور بدعت و ممنوع ہیں ،نہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریقہ تھا ،نہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم  کا، نہ تابعین عظام کا، نہ تبع تابعین کا، نہ امام اعظم کا ،نہ ان کی کسی کتاب میں منقول ہے جو شخص اس کا مدعی  ہے اس سے پوچھنا چاہیے کہ کس کتاب میں لکھا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved