• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تبلیغی جماعت کے بارے میں چند سوالات

استفتاء

آج مورخہ **** میں حضرت **** کی دعوت پر علماء دیوبند کا ایک نمائدہ کنونشن منعقد ہوا۔ جس میں ملک بھر سے معتمد علماء کرام نے شرکت کی، جس میں موجودہ تبلیغی جماعت کے کردار ، قواعد، اور نقصانات پر مدلل بحث میں انہوں نے اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ آخر کار مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر یہ طے پایا۔ فی الحال فوری طور پر کوئی فیصلہ نہ کیا جائے بلکہ ملک کے تمام جید علماء کرام کی خدمت میں ایک سوالنامہ پیش کیا جائے اور ان کے جوابات کی روشنی میں اس مسئلہ کا حل نکالا جائے۔ سوالنامہ مندرجہ ذیل نکات پر ترتیب دیا گیا۔

1۔ قرآن وسنت سے یہ بات قیامت تک طے شدہ معلوم ہوتی ہے کہ امت کی دینی قیادت اوررہنمائی صرف اور صرف علمائے دین سے ہوتی رہے گی۔ جیسا کہ حدیث شریف ( العلماء ورثة الأنبياء) سے متبادر ہوتا ہے۔ اب سول طلب مسئلہ یہ ہے کہ آیا علماء کی قیادت قیامت تک دائمی ہے یا اس کی کوئی حد ہے۔ یعنی زمانہ کے کسی بھی مرحلہ پر غیر علماء دین اس منصب پر فائز ہوسکتے ہیں؟

2۔ دین کے مختلف شعبہ جات میں کام کرنے والی جماعتیں اور افراد ایک دوسرے کے کام کو تسلیم کرتے ہوئے حتی الوسع ان سے تعاون کرتے ہیں،ایک دوسرے کے پروگام میں شرکت کرتے ہیں جس کو عام زبان میں Give and Take کہتے ہیں۔ جیسے علمائے حق اپنی مساجد میں ہمیشہ جماعتوں کی نصرت کرتے ہیں۔وہاں انہیں ٹھہرنے اور کھانے پینے کا موقع دیتے ہیں لیکن جماعت کی طرف سے جماعت کے مراکز میں جید علماء حق کو کبھی خطاب کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا اور جب انہیں یہ تجویز دی جائے تو ہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ بزرگوں کی ترتیب کے خلاف ہے۔ یہ تو ون وے ٹریفک معلوم ہوتی ہے۔ علمائے حق اس کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟

3۔ تمام علماء کی طرف سے یہ سوال اٹھایا گیا کہ یہ لفظ بزرگ تفصیل طلب ہے۔ ہم جب بزرگوں کا لفظ سنتے ہیں یا بولتے ہیں تو ہمارے ذہنوں میں سلف صالحین، فقہاء، محدثین، مفسرین، متکلمین اور صوفیاء سب آتے ہیں یا قریب کےزمانے کے اکابر کا تصور جیسے مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ اور ان کا خاندان، اکابرین علمائے دیوبند۔ جب کہ ان حضرات سے کسی دینی امر درس قرآن، جہاد یا سیاست پر بات کی جائے تو یہ حضرات کہتے ہیں کہ یہ بات ہمارے بزرگوں کی ترتیب کے خلاف ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان بزرگوں سے کون سے بزرگ مراد ہیں۔ ان کی نشاندہی کی جائے؟

4۔ دین اسلام اپنے طور پرا یک ریاست ہے جس کے اپنے اصول وضوابط اور اصطلاحات ہیں۔ افراد کے مابین فضیلت کے اظہار کے لیے وہی مخصوص اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ مثلاً یہ شخص نمازی ہے، تکبیر اولیٰ کا پابند ہے، تہجد گذار ہے، مجاہد ہے، محدث ہے، عالم ہے، فقیہ یا مفتی ہے۔ اب اس پر ایک ریاست در ریاست کا مفہوم لوگوں کے سامنے پیش کرنا اور نئی نئی اصطلاحات کوفضیلت کی بناء بنانا کیسا ہے؟ مثلاً سہ روزہ کے ساتھی ہیں، ان کے چارماہ لگے ہوئے ہیں، یہ بیرون ملک سال لگا کر آئیں ہیں ان کی بات سنیں۔ اس کے علاوہ دسیوں اصطلاحات جوان کے بیانوں میں سننے کو ملتی ہیں بڑے بڑے مشائخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا وقت نہیں لگا ہوا، وہ کام کی ترتیب کو نہیں سمجھتے؟

5۔ یہ کام تقسیم ہندسے پہلے متحدہ ہندوستان میں شروع کیا گیا۔ جو کہ دارالحرب تھا۔ آیا موجودہ پاکستان جوکہ دارالاسلام ہے اس میں بھی اسی ترتیب سے کام کیا جائے گا؟ یا دارالحرب اور دارالاسلام میں دین کے کام کرنے کی ترتیب میں فرق ہے؟

6۔ اس جماعت کا دعویٰ یہ ہے کہ صرف مثبت کام کیا جائے اور معاشرتی منکرات پر نکیر نہ کی جائے ۔ جبکہ یہ بات قرآنی تعلیم ( يأمرون بالمعروف و ينهون عن المنكر ) کے خلاف معلوم ہوتی ہے؟

7۔ آیا نبی ﷺ ، خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کسی موقع پر یہ بات ملتی ہے کہ اسلام کو اس میں داخل ہوئے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا اور کسی کو کہا گیا ہو کہ اسلام کے اندر آکر اس کو سمجھو۔ اس کے باہر رہ کر تمہیں سمجھ نہیں آئےگا۔ نیز اسلامی تعلیمات سے متبادر ہوتا ہے کہ ہر شخص اسلام کو باہوش و حواس سمجھ کر اس میں داخل ہو۔ اور اگر کوئی اسلام میں داخل ہوکر اس سے پھر جائے تو وہ مرتد سمجھاجاتا ہے۔ جس کی شرعی سزا قتل ہے۔ جبکہ یہ لوگ بڑے بڑےعلماء کے بارے میں بھی یہ کہتے سنے گئے کہ وہ جب تک اس کام میں وقت نہیں لگائیں گے انہیں یہ کام سمجھ نہیں آئے گا۔ اس کے بارے میں علماء کی کیا رائے؟

نوٹ: تمام علماء کرام سے گذارش ہے کہ جس تک بھی کنونشن کا یہ سوالنامہ پہنچے وہ اس پر اپنی رائے سے تحریری طور پر مطلع کرے۔ اور ان کے علم میں اگر کوئی اور ایسا عالم ہو جس کو یہ سوالنامہ نہ ارسال کیا جاسکا ہو تو اس تک بھی یہ پہنچائیں۔ امید ہے کہ ہر عالم ( من سئل عن علم فكتمه ألجم بلجام النار يوم القيامة ) کی وعید سے ڈر کر اس کا جواب ارسال کرنے میں کوئی کوتاہی نہ کرے گا۔ ہم اس میں زیادہ سے زیادہ علماء سے راہنمائی لینا چاہتے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ غیر علماء تو نہیں بن سکتے لیکن دین کی دعوت وتبلیغ کے لیے اہل علم غیر علماء کو مخصوص تعلیم و تربیت دے کر ان سے کام لے سکتے ہیں۔

2۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ ایک خاص نہج سے دین کا کام کرنے والے دوسروں کو اپنے پلیٹ فارم پر تقریر و بیان کے لیے موقع دیں۔

3۔ یہ سوال تو تبلیغ والوں سے کرنا چاہیے کیونکہ وہی یہ بزرگ کا لفظ استعما ل کرتے ہیں۔

4۔ جب دین کے کام میں عوام سے کام لے سکتے ہیں تو اسی اعتبار سے ان کا تعارف بھی کراسکتے ہیں۔ اس میں غلو نہیں ہونا چاہیے۔

5۔ عوام کی دینی حالت جب مذکور دارالحرب اور دار الاسلام میں یکساں ہے تو ترتیب ایک ہو مضر نہیں ہے۔

6۔ جو کچھ وہ کرر ہے ہیں یہ بھی غنیمت ہے البتہ نہی عن المنکر ایک مستقل شعبہ ہے جہاں اس کی ضرورت پڑے اور کرسکتے ہوں تو اس سے اجتناب جائز نہیں۔

7۔ یہ تبلیغ والوں کا غلو ہے جو ترتیب انہوں نے اختیار کی ہے اگر دین کی نصوص سےوہ مستنبط و مدلل نہ ہوتو وہ حجت اور شرعی کیونکر بن سکتی ہے؟ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved