• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تبلیغ کے متعلق سوالات اور بیعت کا حکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کچھ تکنیکی مسئلہ کی وجہ سے آپ کا یہ جواب کھل نہیں پایا تھا توآپ کے ان جوابات پر کچھ سوالات ہیں:

(متعلق بہ سوال و جواب نمبر 1)

اسکو چلانے والے موجودہ حالات میں اسے فقط مفید نہیں کہتے بلکہ اسے لازم اور ضروری سمجھتے ہیں ، لازم اور ضروری سمجھنے ہی کی وجہ سے مروجہ تبلیغ سے فتنے رونما ہو رہے ہیں ، مروجہ تبلیغ کے قائدین کے مکتوبات ، ملفوظات ، ارشادات ، بیانات اور اعمال اس سے لبریز ہیں ، فرق باطلہ کی تحقیق و تفتیش میں جنت محنت کی گئی ہے اسکا عشر عشیر بھی کرلیں تو یہ بھی منقح ہوکر سامنے آجائے گی ، ایسی عبارتوں کے حوالے مجھ سے مطلوب ہوں   تو میں پیش کروں ، اسلئے اسے مدارس وخانقاہوں پر قیاس کرنا درست نہیں ہے ، نیز مدارس و خانقاہوں کے نصابات "لایتم الواجب الا بہ ” کی قبیل سے ہونے کی وجہ سے موقوف علیہ اور واجب کا درجہ رکھتے ہیں اور مروجہ تبلیغ فقط مباح ہے ، اسلئے بھی یہ قیاس درست نہیں ہے۔

(متعلق بہ سوال و جواب نمبر 2)

یہ باتیں مجموعی طور پر بحیثیت مجموعی مروجہ تبلیغ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں ، انکو اس میں چھانٹ دیا جائے تو مروجہ تبلیغ معدوم ہوجائیگی ، اوپر اسکے حوالے دے چکا ہوں۔

(متعلق بہ سوال و جواب نمبر 3)

غیر ضروری کو ضروری اور ضروری کو غیر ضروری سمجھنا غلط ہے یہ تو بہت عام بات ہے یہ واضح فرمائیں کہ کس قدر غلط ہے اور ایسی غلطی کرنے والے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ اور مروجہ تبلیغی جماعت اس غلطی میں مبتلا ہے اسکے بارے میں کیا حکم ہے؟

(متعلق بہ سوال و جواب نمبر 4)

یہ خرابیاں ذمہ حضرات میں پائی جاتی ہیں اور انکے واسطہ سے دیگر عام افراد میں آئی ہیں ، اسلئے پوری جماعت پر حکم لگائیے۔
(متعلق بہ سوال و جواب نمبر 5)

(مروجہ تبلیغ کے افراد کا یہ ذہن عمومی طور پر بن گیا ہے۔تعلق بہ سوال و جواب نمبر 6)

یہ خیال غلط ہے کہ مروجہ تبلیغی جماعت میں جو خرابیاں پائی جاتی ہے وہ عام افراد تک محدود ہیں۔
آپ کی طرف سے جواب کا منتظر  رہوں گا۔جزاک اللہ

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ہمارے سابقہ جوابات پر آپ کے سوالات کا حاصل یہ ہے

 ’’کہ تبلیغ والے اسے (یعنی اس طریقےکو) فقط مفید نہیں کہتے بلکہ لازم اور ضروری سمجھتے ہیں حالانکہ یہ طریق صرف مباح ہے اور کسی مباح طریق کو لازم اور ضروری سمجھنا ناجائز ہے۔‘‘

 آپ کی یہ بات اس صورت میں درست ہے جب لزوم اور ضروری سے مراد لزوم شرعی ہو ۔لزوم شرعی بمنزلہ فرض یا واجب کے ہوتا ہے۔ جب لزوم سے مراد لزوم عادی ہو تو اس صورت میں کسی مباح طریقے کو کسی مقصد کے حصول کے لئے اگر لازم اور ضروری کہا جائے تو یہ محل اشکال نہیں۔ ہماری مراد لزوم کی نفی یا اثبات سےلزوم شرعی کی  نفی یا اثبات تھا ،چناچہ پہلے ہی سوال کے جواب کی عبارت یہ ہے ’’تبلیغ کا طریقہ فرض نہیں ہے ‘‘

آپ کا درس نظامی یا مشائیخ صوفیہ کے طریق اصلاح کو لایتم الواجب الابہ میں داخل سمجھ کر ان طرق کو واجب کہنا صحیح نہیں ۔چنانچہ فتاوٰی رشیدیہ صفحہ 55 میں ہے:

سوال : صوفیہ کےیہاں جو اکثر اشغال اور اذکار مثل رگ کیماس کا پکڑنا او ذکر اور حلقہ برقبور اور حبس دم وغیرہ جو قرون ثلاثہ سے ثابت نہیں بدعت ہے یا نہیں؟

جواب :اشغال  صوفیہ بطور معالجہ کے ہیں سب کی اصل نصوص سے ثابت ہے جیسا کہ اصل علاج ثابت ہےمگرشربت بنفشہ حدیث صریح سے ثابت نہیں ایسا ہی سب اذکار کی اصل ہیت ثابت ہے جیسا کہ توپ بندوق کی اصل ثابت ہے اگرچہ اس وقت میں نہ تھی ۔سو یہ بدعت نہیں ہاں ان ہئیات کو سنت ضروری جانا بدعت ہے اور اس کوعلماء نے بدعت لکھا ہے۔

فتاوی رشیدیہ صفحہ 59 میں ہے :

سوال :بیعت ہونے  سے یعنی کسی پیر کے مرید ہونے سے مراد اصلی کیا ہے؟ اور بغیر ہوئے واصل الی اللہ ہو ناممکن ہے یا نہیں؟

جواب :مراد بیعت سے تحصیل اخلاق اور نور اسلام کا تجلیہ ہے اور یہ بدوں شیخ کے بھی حاصل ہو جاتا ہے اگرچہ اکثر یہی ہے کہ کسی توسل کی ضرورت ہے ۔

فتاوٰی رشیدیہ صفحہ 62میں ہے:

سوال :بعض لوگ بیعت کی اہمیت پر بہت زور دیتے ہیں آپ فرمائیں  کیا مروجہ بیعت طریقت ضروری ہے؟ اگر کوئی شخص کسی سے بیعت نہ  ہو تو اسے قیامت کے دن سوال ہوگا؟

جواب :بیعت کا مقصد نسبت احسان کو حاصل کرنا ہے جو کہ حدیث شریف ’’ان تعبد اللہ کانک تراہ‘‘میں مذکور ہے۔ اکثر یہی ہوتا ہے کہ یہ نسبت کسی صاحب نسبت کے توسل ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ گو بعض کو اس کے بغیر بھی حاصل ہو جاتی ہے مگر ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے لہذا اس نسبت کو حاصل کرنے کے لئے بیعت ہونا مستحب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوال :عالم یا فقیر سے مرید ہونا کوئی ضروری بات ہے یا مستحب ہے ؟

جواب:مرید ہونا مستحب ہے واجب نہیں۔

امدادالاحکام(48/1) میں ہے:

بیعت کی حقیقت یہ ہے کہ مرشد اور اس کے شاگرد یعنی مرید کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے،مرشد یہ وعدہ کرتا ہےکہ وہ اس کو اللہ تعالی کے احکام کے مطابق زندگی گزارنا سکھائے گااور مرید وعدہ کرتا ہے کہ  مرشد جو بتلائے گااس پر عمل ضرور کرے گا ۔یہ بیعت فرض واجب تو نہیں ،اس کے بغیر بھی مرشد کی رہنمائی میں اصلاح نفس کا مقصد حاصل ہو سکتا ہے لیکن بیعت چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی سنت ہے اور معاہدہ کی وجہ سے فریقین کو اپنی ذمہ دار یوں کا احساس بھی  رہتا ہے۔ اس لیے بیعت سے اس مقصد کے حصول میں بہت برکت اور آسانی ہو جاتی ہے۔

اس جواب کے بعد بھی اگر آپ کو کوئی اشکال ہو تو آپ براہ راست آکر بات کرسکتے ہیں۔ کیونکہ تحریر در تحریر میں بعض اوقات بات اصل بات سے ہٹ کر دائیں بائیں  نکل جاتی ہے جو موجب خلجان بن سکتی ہےاور اگر آپ کو ہمارے جوابات پر تسلی نہیں ہے تو آپ کسی دوسرے مستنددارالافتاء سے اپنے سوالات کے جوابات حاصل کرسکتے ہیں ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved