• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تبلیغ میں جانا اوروعدہ نبھانا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

حضرت میرے دوست کا مسئلہ ہے کہ وہ جب جماعت میں نکلتے ہیں موبائل مکمل بند کر کے نکلتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی اہلیہ انہیں جانے ہی نہیں دیتی اب وہ نکلنے سے پہلے اپنی اہلیہ سے وعدہ کرکے گئے ہیں کہ وہ جماعت میں روز آدھا گھنٹہ اپنی اہلیہ سے بات کریں گےان شرائط کے ساتھ کہ وہ اس آدھے گھنٹے میں نہ کوئی گھر کا معاملہ بتائیں گی نہ پریشان کریں گی اور نہ لڑائی کریں گی اور میرے ساتھی کے پاس بغیر نیٹ کا موبائل ہےمطلب صرف عام کال یا میسج پر ہی گھر رابطہ ہو سکتا ہے اور فضولیت بھی نہیں تو اس صورت میں وہ اپنا وعدہ توڑ سکتے ہیں؟ یا اس میں کیا صورت  بہتر ہے رہنمائی فرما دیں ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آپ کے ساتھی وعدہ نبھانے میں اگر اپنی دینی تربیت کا نقصان سمجھتے ہوں تو وعدہ توڑ سکتے ہیں ورنہ نہیں توڑنا چاہیے

سنن ابی داود 4/456 میں ہے:

عن زيد بن ارقم عن النبي صلى الله عليه وسلم قال اذا وعد الرجل اخاه ومن نيته ان يفى له فلم يف ولم يجيئ للميعاد فلا اثم عليه

فتح الملھم1/234 میں ہے:

فالمراد بالوعد فى الحديث الوعد بالخير اما الشر فمستحب اخلافه وقد يجب ما لم يترتب على ترك انفاذه مفسدة

شرح الحموی علی الاشباہ والنظائر3/253 میں ہے:

قوله:الخلف فى الوعد حرام قال السبكي ظاه‍ر الآيات والسنة تقتضى وجوب الوفاء وقال صاحب العقد الفريد فى التقليد انما يوصف بما ذكر اى بان خلف الوعد نفاق اذا قارن الوعد العزم على الخلف كما فى قول المذكورين فى اية (لئن اخرجتم لنخرجن معكم)فوصفوا بالنفاق لابطانهم خلاف ما اظهرو واما من عزم على الوفاء ثم بدا له فلم يف بهذا لم يوجد منه صورة النفاق كما فى الاحياء من حديث طويل عند ابى داؤد والترمذى مختصرا بلفظ اذا وعد الرجل اخاه و من نيته ان يفى فلم يف فلا اثم عليه

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved