- فتوی نمبر: 17-77
- تاریخ: 17 مئی 2024
- عنوانات: عقائد و نظریات > دعوت، تبلیغ، تصوف اور احسان
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
- سوالات برائے اظہار موقف بر مروجہ تبلیغ●
حضرات علماء کرام و مفتیان عظام کی خدمت میں:
1۔آیات قرآنیہ و احادیث نبویہ کی تفسیر و تشریح ، کتب متداولہ معتبرہ ، اور جمہور اہل سنت و الجماعة ،سے ہٹ کر کرنا ، مثلا آیات و احادیث دعوت و تبلیغ متعلق بہ کفار و مشرکین کو ایسے بیان کرنا کہ لوگ اسے متعلق بہ مسلمین سمجھنے لگیں ، اور متعلق بہ قتال کو متعلق بہ مروجہ تبلیغ سمجھنے لگیں ، قرآن و حدیث کی معنوی تحریف ہے یا نہیں اور اس تحریف کا کیا حکم ہے ؟
2۔اصطلاحات شرعیہ و عرفیہ میں اپنا معنی داخل کرنا ، مثلا ، فی سبیل اللہ (اصطلاحی یعنی قتال) کا معنی جماعت میں نکلنا ، جہاد (اصطلاحی یعنی قتال) کا معنی جماعت کی محنت کرنا ، ہجرت اور نصرت (اصطلاحی) کا معنی جماعت میں جانا اور جماعت میں آنے والے کو وقت دینا ، اعلاء کلمة ا (اصطلاحی) کا معنی جماعت کے کام کا پوری دنیا میں ہونا ، اسفار صحابہ متعلق بہ غزوہ و سریہ کا معنی جماعت میں جانا ، یہ تحریف ، تلبیس اور دجل ہے یا نہیں ہے ، اور اس تحریف و تلبیس کا کیا حکم ہے ؟ 3۔عام لوگ جو اصول شریعت اور فہم شریعت سے لاعلم ہیں ، انہیں عام مجامع میں ، بانداز علماء کرام ، عمومی بیان کی اجازت دینا اور بیان کروانا "اذا وسد الامر الی غیراهله فاتنظر الساعة” کا مظہر ہے یا نہیں ؟ یعنی دین و شریعت کی تباہی و بربادی کا بڑا سبب ہے یا نہیں؟
4۔مروجہ تبلیغ کو ایسے انداز سے ، انبیاء کی سنت ، نیبیوں اور صحابہ والا کام کہنا ، انبیاء کی بعثت کا مقصد اصلی قرار دینا اور اس کام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قائم مقام قرار دینا ، کہ لوگ سمجھنے لگیں کہ انبیاء کرام اور صحابہ کرام مروجہ تبلیغی جماعت کی طرح (اسکے مالہ و ماعلیہ کے ساتھ) دعوة و تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے تھے ،ً نتیجة مروجہ تبلیغ کو تمام دینی شعبوں سے اور خود کو تمام دینی خدام سے افضل و اعلی سمجھنے لگیں ، یہ دھوکہ ہے یا نہیں ؟ اسکا کیا حکم ہے ؟
5۔مروجہ تبلیغ کو فرض عین کہنا یا اسکے ساتھ فرض عین جیسا معاملہ کرنا ، اسکے ساتھ ذریعہ اور سبب کے بجائے مقصود جیسا معاملہ کرنا ، اسکو دین سمجھنا اور دین بنانا ہے یا نہیں اور غیر دین کو دین سمجھنا سنت ہے یا بدعت ؟
6۔مروجہ تبلیغ کا شارع کی جانب سے امر ہے اور نہ ہی "مالایتم الواجب الابہ” کی قبیل سے ہے ، اسلئے مروجہ تبلیغ از روئے فقہ زیادہ سے زیادہ مباح ہے بشرطیکہ امور غیر شرعیہ سے پاک ہو ، پھر بھی اس پر دوام و اصرار اور اسکا التزام بدعت ہے یا نہیں ؟
7۔مروجہ تبلیغی جماعت کے نزدیک من حیث الجماعة مسلک دیوبند یعنی اہل سنت و الجماعت کے وہی فتاوی معتبر ہوتے ہیں جو مروجہ تبلیغ کے ہم آہنگ ہوں ، نیز وہی لوگ حق پر سمجھے جاتے ہیں جو مروجہ تبلیغ پر ایمان لائیں (مروجہ تبلیغ میں بالفعل مشغول رہیں) خواہ علم و عمل کے پہاڑ ہی کیوں نہ ہوں ۔ اسکے ثبوت کیلئے کچھ اہم واقعات پیش خدمت ہیں: (۱)مولانا عاشق الہی صاحب میرٹھی رح کی تنبیہ پر توجہ نہیں گئی (آپ بیتی ، ص از ١٥٢ تا ١٥٤ (
(۲)٦٧/سال پہلے ١٩٥١ء میں مستورات کی جماعت کے متعلق دار العلوم دیوبند اور مظاہر علوم سہانپور نے عدم جواز کا متفقہ فتوی دیا ، اسے قبول کرکے مستورات کی جماعت کو بند نہیں کیا گیا (٣)مولانا ابوالحسن علی ندوی نے مکرر ، سہ کرر ، گذارشات کیں کہ "کم تبدیلیوں اور زیادہ اضافوں کی ضرورت ہے (کاروان زندگی ج ٣ ص ٣١٤ ، ٣١٥ ، ٣١٦ (کوئی توجہ نہ کی گئی (٤)قاضی عبدالسلام صاحب نوشہرہ رح نے سمجھایا ، نہیں مانے تو "شاہراہ تبلیغ” تصنیف کرکے صحیح اور غلط کے درمیان تمییز کیا (٥) مولانا عبدالرحیم صاحب دہلوی رح نے سمجھایا ، اعراض کیا گیا تو ” اصول دعوت و تبلیغ” لکھ کر حق کو واضح کیا ، (٦ (مفتی تقی صاحب عثمانی وغیرہ دامتبرکاتہم نے رائیونڈ کے ذمہ داروں کو بلایا ، نہیں آئے تو اجتماعی خط لکھ کر بھیجا (٧) دارالعلوم دیوبند نے مولانا سعد کاندھلوی کو سمجھایا ، نہیں مانے تو شرعی موقف کا اعلان کیا ، اتنے واقعات کا مشاہدہ اور تجربہ کرلینے کے بعد یہ امید رکھنا کہ "مروجہ تبلیغی جماعت” صدائے حق کو قبول کریگی ، خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ نہ ماننے کی وجہ یہ ہیکہ باب تبلیغ میں یہ حضرات خود کو اعلم و افقہ سمجھتے ہیں۔ واقعہ یہ ہیکہ مروجہ تبلیغی جماعت جب تک کمزور تھی اور اسے بیساکھی کی ضرورت تھی ، تب تک دار العلوم دیوبند اور مظاہر علوم سہارنپور کو استعمال کرتی رہی ، جب اسکی جڑیں مضبوط ہوگئیں اور اسکا شور و غلغلہ ہوگیا ، تو نافرمان اولاد کی طرح آنکھیں دکھانے لگی ، اب سبکو مروجہ تبلیغ کے فیتہ سے ناپتی اس صورت حال اور پس منظر میں مروجہ تبلیغی جماعت دیوبندی جماعت ہے یا اس سے علیحدہ کوئی مستقل جماعت ہے؟ اب اس جماعت کا مناسب نام کیا ہوگا ؟ تحریفی جماعت یا تخریبی جماعت ؟(۸)یہ کہکر جان نہ چھڑائی جائے کہ مروجہ تبلیغ میں درآئی غلطیاں افراد کی ہیں طریقہء کار کی نہیں ، اصاغر اور جہلاء کی ہیں ، قائدین جماعت کی نہیں ، صرف عملی ہیں ، نظریات و اعتقاد کی نہیں ، سرسری اور جزوی ہیں ، حقیقی اور کلی نہیں ، اسلئے کہ دلائل و شواہد اسکے خلاف ہیں ، انہیں ملاحظہ کرلیا جائے تو یہ حسن ظن کافور ہو جائیگا ، اور لاعلمی علم میں تبدیل ہو جائیگی ، اس بابت بیداری کا ثبوت دیا جائے ، مکمل تحقیق سے کام لیا جائے ، اسکے بعد صاف لفظوں میں واضح کیا جائے کہ "مروجہ تبلیغ کی خامیاں افراد کی ہیں یا طریقہء کار کی ؟ اصاغر ، جہلاء کی ہیں یا قائدین جماعت کی ؟ صرف عملی کوتاہیاں ہیں یا نظریات و اعتقاد کی بھی ؟ سرسری اور جزوی ہیں یا حقیقی اور کلی ؟ (٩ (مروجہ تبلیغ کی کلی تحقیق سے متعلق کچھ تحقیقی کتابوں کا نام اور اسکی پی ڈی ایف فائل سوال کے ساتھ پیش خدمت ہے ، تاکہ تحقیق میں آسانی ہو (١) مروجہ تبلیغی جماعت کی شرعی حیثیت اور اسکا حکم اور الکلام البلیغ فی احکام التبلیغ ، مصنفہ علامہ محمد فاروق صاحب اترانوی ، الہ آبادی ، تربیت یافتہ از حضرت مولانا شاہ وصی ا صاحب فتحپوری ثم الہ آبادی (٢)شاہراہ تبلیغ ، مصنفہ قاضی عبدالسلام صاحب نوشہرہ ، مفتی تھانہ بھون ، خلیفہ حکیم الامت ، مجدد ملت ، حضرت مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی رح (٣)اصول دعوت و تبلیغ ، مصنفہ مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب دہلوی (٤)تبلیغی جماعت کے طریقہء کار کی شرعی حیثیت ، مصنفہ مولانا اعجاز احمد اعظمی رح۔ اسی کے ساتھ کچھ ایسے مضامین ، فتاوی اور کتب پیش خدمت ہیں ، جن میں مروجہ تبلیغ پر جزوی کلام کیا گیا ہے (١)آپ بیتی ص از ١٥٢ تا ١٥٤ ، مصنفہ مولانا زکریا صاحب رح (٢) تبلیغ دین کیلئے ایک اصول اور کاروان زندگی ج ٤ ص ٣١٤ ، ٣١٥ ، ٣١٦ ، مصنفہ مولانا ابوالحسن علی ندوی رح ،(٣)) فتاوی عثمانی ج ١ ص از ٢٣٧ تا ٢٤٧ اور تقریر ترمذی حصہ دوم ، کتاب السیر ، ص از ١٩٩ تا ٢٢٠ مفتی تقی صاحب عثمانی (٤ (تحفة الالمعی ج ٤ ص از ٥٥١ تا ٥٦٦ مصنفہ مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری (٥ (تبصرہ مولانا سید احمد رضا صاحب بجنوری رح ، انوار الباری ج ٥ ص از ١١٨ تا ١٢٠) ٦ (تقریظ شیخ التفسیر مولانا ذاکر حسین صاحب بنگلوری رح ، انوار الباری ج ٧ ص ٥٥٢ ، ٥٥٣) ٧ (احقاق الحق البلیغ فی بعض ما احدثتہ جماعة التبلیغ، مصنفہ مولانا ابو اسید امان ا عمر زئی چھچھ اٹک خلیفہ سید شاہ نفیس الحسینی صاحب (٨ (کلمة الہادی الی سواء السبیل فی جواب من لبس الحق بالاطیل ، مصنفہ مفتی عیسی صاحب گورمانی ، گوجرانوالہ شاگرد مولانا محمد سرفراز صاحب صفدر رح (٩ (مولانا طارق جمیل کی بے اعتدالیاں اور انکا جواب ، مصنفہ ڈاکٹر عبدالواحد صاحب جامعہ مدنیہ لاہور ۔ (١٠ (گذارش : مذکورہ بالا سوالات کو مخالفت اور بدنیتی پر محمول نہ کیا جائے ، بلکہ اس بابت غور و خوض سے کام لیا جائے ، اور تحقیق کی جائے ، سرسری جوابات اور نامناسب تاویلات سے کام نہ لیا جائے ، مروجہ تبلیغ اور مروجہ تبلیغی جماعت کی اب جو صورت حال ہے ، اسکی بابت شرعی موقف صاف صاف لفظوں میں تحریر کیا جائے ، تاکہ کشمکش کا سلسلہ ختم ہو ، امید ہیکہ توجہ فرمائیں گے ، یہ سوالات مجلس اصلاح امت کی طرف سے مرتب کئے گئے ہیں۔ از مجلس اصلاح امت ١٥/جمادی الثانیہ ١٤٤٠ھ 20/فروری 201
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
آپ کی تحریر سے معلوم ہوتاہے کہ آپ حضرات کے سامنے یہ بات واضح ہے کہ تبلیغی جماعت اپنی موجودہ حالت میں ایک گمراہ جماعت ہے اور ہماری طرف سے بھی آپ اسی جواب کے خواہاں ہیں بصورت دیگر آپ ہمیں مزیددلائل فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں، ہماری بات ماننے کے لیے تیار نہیں،ایسی صورت میں جواب دینا مفید نہیں۔
نوٹ:ڈاکٹرمفتی عبدالواحدصاحبؒ تبلیغ والوں کی بعض باتوں سے علمی اختلاف تھا لیکن اس کےباوجود وہ موجودہ حالات میں بھی وہ تبلیغی کام کواپناکاماورتبلیغی جماعت کواہل حق کی جماعت سمجھتے تھے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved