• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تحدید و تفصیل مسجد تقویٰ اور ساتھ جگہ

استفتاء

تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ ہماری اعوان مارکیٹ اٹاری سروبہ میں کوئی ایسی جگہ یا مسجد نہ تھی جہاں جماعتوں کا ٹھہراؤ ہو اور کھل کر کام کر سکیں، ساتھیوں نے فکر کی کہ جگہ خرید کر مسجد بنانی چاہیے، میں نے اپنا مکان بیچ کر اپنے پیسوں سے جگہ خرید کر مسجد کی تعمیر شروع کر دی۔ سنگِ بنیاد جناب مفتی خلیل الرحمٰن صاحب نے رکھا، نام مشورے سے ’’تقویٰ مسجد‘‘ رکھا گیا، بیسمنٹ تیار کیا، ایک سال بیسمنٹ میں نمازیں ادا کرتے رہے دوسرے سال میں فسٹ فلور کی تعمیر مکمل ہوئی تو فسٹ فلور میں نماز اذان ہوتی رہی ، کمیٹی نہ بنائی میں خود ہی یعنی***متولی کی حیثیت سے کام کرتا رہا، تقریباً 3 سال کے بعد گراؤنڈ فلور کی مسجد کی چھت ڈالی اور مسجد میں جو رقم لگائی گئی جگہ خرید خرچہ تعمیر کسی سے کوئی رقم نہ لی  گراؤنڈ فلور اور بیسمنٹ میں بچے حفظ و ناظر پڑھتے رہے، میں تعمیر یعنی مستری کا کام کرتا تھا، پیچھے کچھ ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ یہ مسجد کا انتظام کسی تجربہ کار شخص کو دیے دیا جائے۔ لہذا مولانا عبد الشکور حقانی صاحب نے اپنا مدرسہ  دیکھایا اور ہم نے مسجد کا انتظام ان کے حوالے کر دیا انہوں نے  گراؤنڈ فلور میں کمرے بنا کر بچیوں کی کتابوں کی پڑھائی شروع کر دی مسجد کے اوپر فسٹ فلور کی چھت ڈالی اور کام کرتے رہے، تقریباً ڈیڑھ سال بعد انہوں نے مدرسہ بچیوں کا ختم کر کے قاری صاحب کے بچوں یعنی میاں بیوی نے رہائش شروع کر دی، دو سال میں دو قاری صاحب بمعہ فیملی چھٹی کرائی، اب تیسرا قاری صاحب کی بچوں کے ساتھ مکمل رہائش ہے مسجد کے بالکل نیچے اور مسجد یعنی مدرسے کے بالکل اوپر بھی اکثر لوگ باتیں کرتے ہیں کہ مسجد کے نیچے اور اوپر میاں بیوی والی فیملی کی رہائش صحیح نہیں ہے۔ قاری صاحب باہر ملازمت کرتے ہیں اور ٹیوشن بھی پڑھاتے ہیں، مغرب، عشاء، فجر صرف تین نمازیں پڑھاتے ہیں، بجلی گیس پانی مسجد کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کا قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں کہ کیا مسجد کے تقدس میں کچھ فرق نہیں ہے؟ کیا ان کا رہنا صحیح ہے؟

نوٹ: مسجد قدیم کے بارے میں واقف کی شروع سے یہ نیت تھی کہ بیسمنٹ اور گراؤنڈ فلور میں بچیوں کی تعلیم ہو گی اور فرسٹ فلور میں نمازیں پڑھی جائیں گی۔

دوسرے فریق کا بیان

سائل نے سوال میں کچھ باتوں میں  خلاف واقعہ باتیں کی ہیں البتہ اس کے آخر میں قائم کردہ سوال سے بندہ کو اتفاق ہے۔ البتہ یہ وضاحت بھی شامل سوال کر لی جائے کہ امام مسجد کو مسجد کے نیچے مدرسے کی جگہ میں رہائش دینے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی اہلیہ عالمہ ہیں اور انہوں نے ہمارا بنات کا مدرسہ سنبھالا ہوا ہے وہ اس میں پڑھاتی بھی ہیں اور اس کے نظم کو بھی دیکھتی ہیں گویا کہ وہ مدرسے کے ملازم ہیں جن کو مدرسے کی جگہ پر رہائش مہیا کی گئی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ بیسمنٹ اور گراؤنڈ فلور کے بارے میں چونکہ واقف کی نیت شروع سے مسجد شرعی کی نہیں تھی بلکہ مدرسے کی تھی اس لیے یہ دونوں فلور مسجد شرعی نہیں ہیں۔ ان کا تقدس و احترام مسجد شرعی والا نہیں ہو گا۔ چنانچہ امام مسجد کی رہائش رکھنے کی گنجائش ہے۔  جبکہ ان کی اہلیہ مدرسے کی خدمت سے بھی وابستہ ہیں۔

در مختار (6/548) میں ہے:

(وإذا جعل تحته سرداباً لمصالحه) أي المسجد. قال الرافعي: قوله (لمصالحه) ليس بقيد بل الحكم كذلك إذا كان ينتفع به عامة المسلمين على ما أفاده في غاية البيان حيث قال: أورد الفقيه أبو الليث سؤالاً وجواباً فقال فإن قيل: أليس مسجد بيت المقدس تحته مجتمع الماء والناس ينتفعون به قيل إذا كان تحته شيء ينتفع به عامة المسلمين يجوز لأنه إذا انتفع به عامتهم صار ذلك حقاً لله تعالى أيضاً.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved