• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

تجوید کے متعلق سوالات

  • فتوی نمبر: 13-356
  • تاریخ: 13 جولائی 2019

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ان میں مسائل کے بارے میں کہ:

م:   یہ علامت وقف لازم کی ہے ۔معلم قرآن طلباء کرام کو اس وقف لازم پر وقف نہ کروائے تو قاری صاحب شرعا  گناہ گار ہوں گے ؟

ط: یہ وقف مطلق کی علامت ہے یہ وقف عبارت کے درمیان آئے اس پر طلباء کو وقف نہ کرانے پر شر عا کیا قاری  صاحب گنہگار ہوں گے؟

ز:   یہ علامت وقف مجوز کی ہے ۔یہ وقف عبارت کے درمیان آئے اس پر قاری صاحب طلبہ کرام کو  وقف کراے اور پھر آگے سے پڑھے تو قاری صاحب شرعا گناہ گار ہوں گے؟

ص:           یہ وقفے مرخص کے علامت ہے۔ یہ وقف عبارت کے درمیان آئے اس پر طلباء کرام کو وقف کرواکر آگے سے پڑھوائے شرعا کیا حکم ہوگا ؟ہر ایک کی مکمل وضاحت فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1-وقف لازم کی علامت ’’م‘‘‘ پر اگر معلم (استاد)طلباء کو وقف نہ کرائے تو اس سے قاری صاحب (استاد)گناہ گار نہ ہو گا کیونکہ اس علامت پر اصول تجوید کے لحاظ سے اگر چہ وقف لازم ہے لیکن یہ لازم فقہی معنی میں نہیں ہے کہ جس کے ترک (چھوڑنے)کی وجہ سے گناہ ہو۔

2-’’ط‘‘جو وقف مطلق کی علامت ہے اس پر تو اصول تجوید کےلحاظ سے بھی ٹھہرنا اولی (بہتر)ہے لازمی نہیں،لہذا اس علامت پر وقف نہ کرانے سے قاری (استاد)گناہ گار نہ ہوگا۔

3-’’ز‘‘جو وقف مجوز کی علامت ہے اس پر اصول تجوید کے لحاظ سے نہ ٹھہرنا صرف بہتر ہے لازم نہیں ،لہذا اگر قاری (استاد)یہاں وقف کرادیتا ہے تو اس سے قاری (استاد)گناہ گار نہ ہوگا۔

4-’’ص‘‘کی علامت پروقف کرانے سے بھی قاری (استاد)گناہ گار نہ ہو گا کیونکہ اصول تجوید کے لحاظ سے اس علامت پر بھی وقف نہ کرانا صرف بہتر ہے لازم نہیں۔البتہ چونکہ قاری صاحب کی ذمہ داریوں میں یہ شامل ہے کہ وہ طلباء کو قرآن پاک تجوید کے ساتھ پڑھائے ،رموز اوقاف کاعلم اور رموز اوقاف کے مطابق تلاوت کرنا یا سکھانا تجوید کی تکمیل ہے ،اس لیے اس ذمہ داری کو ادا نہ کرنے پر قاری صاحب گناہ گار ہوں گے۔

فی المنح الفکریة فی شرح المقدمة الجزریة:260

ولیس فی القرآن من وقف واجب ولاحر ام غیر ماله سبب وقال الملاعلی قاری فی شرح البیت :وحاصل معنی البیت بکماله انه لیس فی القرآن وقف واجب یأثم القاری بترکه ولاوقف حرام یأثم بوقفه لانهما لا یدلان علی معنی فیختل بذها بهما الاان یکون لذلک سبب یستدعی تحریمه وموجب یقتضی تأثیمه کأن یقصد الوقف علی (وما من اله ) و(وانی تکفرون )ونحوهما کما سبق من غیر ضرورة اذ لایقصد ذلک مسلم واقف علی معناه واذا لم یقصد فلایحرم علیه لاالوصل ولاالوقف فی مبناه ۔

امداد الفتاوی (1/202)میں ہے:

سوال:وقف قراءت قرآن مجید مواضع اوقاف میں بمجرد اسکان حروف موقوف علیھا بلاقطع انفاس گزرجانا جیسا کہ عادت اکثر حفاظ کی ہے جائز ہے یانہیں؟

الجواب :شرعا جائز ہےیعنی گناہ نہیں لیکن عربیت وفن قراءت کے خلاف ہے ۔فقط

فتاوی محمودیہ3/486میں ہے:

سوال:قرآن شریف میں جو گول آیت جگہ جگہ بنی ہوتی ہیں اس گول آیت پر کسی جگہ الف کسی جگہ میم کسی پر صل تو اس صورت میں جس جگہ دل چاہےٹھہرجائے اور جس جگہ دل نہ چاہے نہ ٹھہرے جیسے ج۔زید کا فرمانا ہے کہ ہر گول آیت پر ٹھہرنا ضروری ہے کیونکہ ان گول آیتوں میں ترمیم نہیں ہوتی ۔یہ بجنسہ وحی کے ساتھ نازل ہوئی ہیں اور جس کو حضرت عثمان ؓ نے بجنسہ ترتیب دیا ہے اور بجنسہ ایسے ہی نازل ہوئیں ۔کیا ہر گول آیت پر ٹھہرے یا جہاں جیسی علامت حروف کی ہو ویسا عمل کرے جیسے’’ ط ،ج ،ص ،ق، ل، و ،م‘‘ وغیرہ

جواب:فقہاء کے نزدیک ان میں سے کسی مقام پر ٹھہرنا واجب نہیں ،یہ قرآء کی اصطلاحات ہیں ان کی رعایت محض مستحب ہے واجب نہیں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved