• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

تکافل کے ناجائز ہونے پر اعتراض کاجواب

  • فتوی نمبر: 12-373
  • تاریخ: 21 نومبر 2018

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مجھے کچھ تفصیل درکار ہے کہ کیسے وقف کی بنیاد پہ تکافل نا جائز ہے اور مشارکہ یا اجارہ پر گاڑی لینا بھی نا جائزمزید یہ کہ گاڑی کا قسطوں پہ لینا ایک الگ معاملہ ہے اور اس کا تکافل کروانا ایک الگ معاملہ ،دونوں کی حیثیت ایک دوسرے سے جدا اور مختلف ہے۔بینک اجارہ کی بنیاد پر کرایہ لیتا ہے، مواعدہ کی بنیاد پر اپنا حصہ تھوڑا تھوڑا کر کے فروخت کرتا ہے.اور وقف کی بنیاد پر اس کا تکافل ایک الگ فریق سے کرواتا ہے.یہ سارے معاملات ایک دوسرے سے الگ الگ ہوتے ہیں اور ان کا ایک دوسرے سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا..

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

تکافل کے ناجائز ہونے کی تفصیل ہماری کتاب جدید معاشی مسائل کی اسلامائز یشن کا شرعی جائز ہ نامی کتاب میں ملاحظہ فرمائیں۔جب انشورنس یا تکافل ناجائز ہے اور اس معاملے میں وہ لازمی ہے توتکافل اگر چہ کار اجارہ کا حصہ نہ ہوتا ہم اس کے ساتھ مربوط ہے ۔اوراجارہ پر گاڑی لینے والاشخص اس کا سبب بنتا ہے اس لیے کارلیزنگ کو تکافل انشورنس سے الگ کر کے دیکھنا ممکن نہیں ۔

نوٹ:         آپ کا سوال چونکہ عمومی اور اصول نوعیت کا ہے اس لیے اس کا جواب تو وہی ہے جو لکھا گیا تاہم اگر کسی شخص کو گاڑی لینے کی کوئی خاص مجبوری ہو اور گاڑی سے اس کی بنیادی ضروریات کا مسئلہ حل ہوتا ہو تو ایسے شخص کے لیے گاڑی لینے کاکیا حکم ہو گا؟اس کا جواب متعلقہ شخص کے تفصیلی حالات کے بعد دیا جاسکتا ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved