• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تکافل کے ناجائز ہونے پر اعتراض کاجواب

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مجھے کچھ تفصیل درکار ہے کہ کیسے وقف کی بنیاد پہ تکافل نا جائز ہے اور مشارکہ یا اجارہ پر گاڑی لینا بھی نا جائزمزید یہ کہ گاڑی کا قسطوں پہ لینا ایک الگ معاملہ ہے اور اس کا تکافل کروانا ایک الگ معاملہ ،دونوں کی حیثیت ایک دوسرے سے جدا اور مختلف ہے۔بینک اجارہ کی بنیاد پر کرایہ لیتا ہے، مواعدہ کی بنیاد پر اپنا حصہ تھوڑا تھوڑا کر کے فروخت کرتا ہے.اور وقف کی بنیاد پر اس کا تکافل ایک الگ فریق سے کرواتا ہے.یہ سارے معاملات ایک دوسرے سے الگ الگ ہوتے ہیں اور ان کا ایک دوسرے سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا..

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

تکافل کے ناجائز ہونے کی تفصیل ہماری کتاب جدید معاشی مسائل کی اسلامائز یشن کا شرعی جائز ہ نامی کتاب میں ملاحظہ فرمائیں۔جب انشورنس یا تکافل ناجائز ہے اور اس معاملے میں وہ لازمی ہے توتکافل اگر چہ کار اجارہ کا حصہ نہ ہوتا ہم اس کے ساتھ مربوط ہے ۔اوراجارہ پر گاڑی لینے والاشخص اس کا سبب بنتا ہے اس لیے کارلیزنگ کو تکافل انشورنس سے الگ کر کے دیکھنا ممکن نہیں ۔

نوٹ:         آپ کا سوال چونکہ عمومی اور اصول نوعیت کا ہے اس لیے اس کا جواب تو وہی ہے جو لکھا گیا تاہم اگر کسی شخص کو گاڑی لینے کی کوئی خاص مجبوری ہو اور گاڑی سے اس کی بنیادی ضروریات کا مسئلہ حل ہوتا ہو تو ایسے شخص کے لیے گاڑی لینے کاکیا حکم ہو گا؟اس کا جواب متعلقہ شخص کے تفصیلی حالات کے بعد دیا جاسکتا ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved