• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاقِ ثلاثہ

استفتاء

میں ***جس کی شادی  کے ساتھ 2001ء میں ہوئی تھی، *** بہت معمولی بات پر اور کبھی کبھی بالکل ہی بے وجہ بہت غصے میں آ جاتے اور بہت مار پیٹ کرتے اور بہت اونچی آواز میں انتہائی ذلت آمیز الفاظ بولتے اور گالی گلوچ کرتے، جس پر محلہ دار اکٹھے ہو جاتے تھے، ایک دن پھر اسی مارپیٹ کے نتیجے میں تنگ آ کر میں نے *** سے یہ تحریری اقرار لیا کہ "آئندہ اگر وہ مارے گا تو میرا اور ان کا رشتہ  ٹوٹ جائے گا”۔ چنانچہ مئی 2004ء میں *** نے تحریر کر کے دیا کہ:

"میں آج سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ ***پر ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا بصورت دیگر میرا اور ***کا رشتہ ختم ہو جائے گا”۔

مگر افسوس کہ اس وعدہ کا کوئی پاس نہ رکھا گیا اور 2005ء میں دوبارہ نا قابل برداشت مارپیٹ ہوئی، ہوش آئی تو شوہر نے گھبرا کر ادھر ادھر فون پر معلومات لی، اس پر عالم دین نے فوراً توبہ تائب ہونے، اللہ سے معافی مانگنے اور آئندہ ہرگز ایسا نہ کرنے کی تلقین فرمائی اور اس بات کو یہیں ختم کرنے اور دوبارہ ذکر کرنے سے منع فرمایا۔ چھوٹی بڑی ناچاقیاں اور اونچ نیچ چلتی رہی، مار پیٹ بھی ہوتی رہی مگر 2007ء میں *** نے پھر شدید زدو کوب کیا اور چیخ و پکار پر اہل محلہ اکٹھے ہو گئے، اس نے مجھے آخر کار مار کر گھر سے بھی نکال دیا اور میں ہمراہ اپنے دونوں بچوں کے اپنے میکے آ گئی۔

بہت رُو دھو کر شرمندہ ہونا اور معافی طلب کرنا *** کی پرانی عادت بن چکی تھی، اس بار بھی یہی ہوا مگر اس بار علماء نے تجدید نکاح کا حکم دیا۔ نکاح کے بعد میں نے ایک خوشگوار رشتے کی شروعات کرنے کی امید سے اپنا 2004ء میں لیا ہوا تحریری وعدہ واپس لے لیا، گویا ان کو معاف کر دیا اور انہوں نے مجھے گھر تحفے میں دے دیا۔ دُکھ اس بات کا ہے کہ *** اپنی روش پر قائم رہے اور 2011ء میں *** نے گھریلو جھگڑے کے نتیجے میں اپنی ساس یعنی میری والدہ کو فون پر کہا کہ "میں  نے تین بار اپنی بیوی کو طلاق دی”۔ اس وقت میں یہاں موجود نہ تھی۔

18 ستمبر 2013 ء کو *** نے پھر مجھے مارا پیٹا اور گھر چھوڑ دینے کو کہا جس پر میں بچوں کو لے کر پھر اپنے والدین کے گھر آ گئی۔

دو ماہ *** کو میرے والدین اور بھائی سمجھاتے رہے کہ خرچہ دو، مگر اس نے نہیں دیا، مگر میرے رشتہ داروں پر صلح کے لیے زور دیتا رہا۔ ساتھ ساتھ ہی میرے سے اس کا رویہ بدستور سخت ہی رہا۔ 23 نومبر 2013ء کو *** میرے ماموں ممانی، خالہ خالو، اور نانی کو لے کر میرے گھر آئے اور میری واپسی پر اصرار کیا، باتوں کے دوران *** نے کافی تلخ کلامی کی اور میرے والد سے بدتمیزی پر اتر آئے، *** نے انتہائی نا مناست الفاظ استعمال کیے اور والد سے گالی گلوچ کی۔ اس کے نتیجہ میں میری اور *** کی تلخ کلامی ہوئی اور *** نے درج ذیل الفاظ تمام رشتہ داروں کی موجودگی میں کہے:

"میں تمہیں طلاق دیتا ہون، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں”۔

اس ساری صورتحال کے بعد براہ کرم آپ اپنی عالمانہ رائے سے آگاہ فرمائیں تاکہ مجھے اپنے  اور *** کے رشتے کی شرعی حیثیت واضح ہو۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں۔ نکاح مکمل طور سے ختم ہو گیا ہے۔ اب نہ صلح ہو سکتی ہے اور نہ ہی رجوع کی گنجائش ہے۔

نوٹ: تین طلاقیں واقع ہونے کے دلائل منسلکہ تحریر میں الگ سے ملاحظہ فرمائے جائیں۔ فقط  و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved