• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق کا نوٹس

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیان دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری شادی مسماة***سے 2000- 04- 02 کو ہوئی تھی۔ شادی کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد میں نے اپنی بیوی کو کسی بات پر دو طلاقیں دیں ” کہ میں نے تجھے طلاق دی، میں نے تجھے طلاق دی”۔ اس کے بعد میں نے ایک عالم صاحب سے مسئلہ پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اگر آپ دونوں آپس میں صلح کرلیں تو دوبارہ رہنا صحیح ہے۔ تو ہم نے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد تقریباً دو سال تک اکٹھے رہے۔ دو سال کے بعد ان کے والدین نے میرے دکان چھوڑنے کی وجہ سے میرے ساتھ جھگڑا شروع کردیا کہ آپ نے اپنی روزی کیوں خراب کی اور بیٹی کو گھر لے گئے۔ اور یہ مطالبہ کیا کہ ہم اپنی بیٹی آپ کو تب حوالہ کریں گے جب آپ اس کے نام پلاٹ کردیں ورنہ ہماری بیٹی کو طلاق دو اور سارا سامان حوالہ کردو۔ میں نے انکار کردیا۔ اس کے بعد انہوں نے بچوں اور بیوی کے نفقے کے لیے عدالت میں کیس دائر کردیا۔ اور انہوں نے میرے خلاف 88.500 کی ڈگری خرچے کرادی اور ہر مہینہ 4500 روپے کرنا طے پایا۔

عدالتی فیصلہ ہونے کے تقریبا مہینہ ڈیڑھ مہینہ بعد میں نے بیوی کا خرچہ روکنے کے لیے بیوی کے نام طلاق کا نوٹس بھیجا۔ جس میں ایک طلاق ایک مہینے کی نوٹس جاری تھا۔ وہ کاغذ بھی ساتھ ہے۔

اب ایک سال گذرنے کے بعد یہ معلوم نہیں کہ وہ نوٹس ان کو پہنچا یا نہیں؟ وہ لوگ صلح کرنے پر راضی ہوگئے ہیں کہ اگر آپ پلاٹ بیوی کے نام کرادیں تو عدالت میں دائر کیس ہم واپس لے لیں گے اور بیوی بچوں کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ تیسری طلاق  ہوئی یا نہیں؟

نوٹ: بیوی اور گھر والوں کا حلفیہ بیان ہے کہ ہمیں طلاق کا کوئی نوٹس وصول نہیں ہوا۔

نوٹس کے الفاظ: ” مسماة ***کو بذریعہ نوٹس ہذا مطلع اور تنبیہ کرتا ہے کہ اگر وہ میرے ساتھ رشتہ نکاح قائم رکھنا چاہتی ہے تو اندر ایک ماہ مورخہ 2006- 10- 15 تک میرے گھر  آباد ہوکر حقوق زوجیت ادا کرے بصورت دیگر اس نوٹس کو طلاق نامہ تصور کیا جائے گا۔۔۔۔۔۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

شوہر نے جو تحریر لکھی ہے اس میں اپنی بیوی کو خطاب اور مطلع کرنے کا ذکر کیا ہے۔ اس لیے اس تحریر کا اثر لکھنے کے وقت سے شروع نہیں ہوگا بلکہ عورت کو علم ہونے کے بعد اس کا اثر شروع ہوگا اور چونکہ اس کا تعلق ایک خاص مہینے سے ہے اور اس مہینے میں عورت کو اطلاع نہیں ہوئی لہذا تیسری طلاق واقع نہیں ہوئی۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved