• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلباء سے گھریلو خدمت لینا

استفتاء

استاد کا اپنے شاگردوں سے گھریلو کام کروانا جائز ہے یا نہیں اور اگر جائز ہے تو کس حد تک جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

استاد کا طلباء سے گھریلو خدمت لینا جائز ہے بشرطیکہ طلباء وہ خدمت خوش دلی سے استاد کی خدمت سمجھتے ہوئے کریں، اس سے طلباء کی تعلیم کا حرج نہ ہو اور وہ خدمت ان کی طاقت سے باہر نہ ہو۔

صحيح  بخاری (رقم الحدیث:143) میں ہے:

عن ابن عباس: أن النبي صلى الله عليه وسلم دخل الخلاء، فوضعت له وضوءا، قال: من وضع هذا، فأخبر، فقال: اللهم فقهه في الدين

سنن  ترمذی  (رقم الحدیث:3829) میں ہے:

عن ‌أم سليم أنها قالت:يا رسول الله، أنس خادمك، ادع الله له! قال: اللهم أكثر ماله وولده، وبارك له فيما أعطيته

کفایت  المفتی (2/42) میں ہے:

سوال: طلباء سے استاد کام لے تو جائز ہے یا نہیں ؟ اور استاد کو اجر ملے گایا جاتا رہے گا؟

جواب: طلباء سے عرفی طور پر کوئی کام لینا جو وہ بطیب خاطر خدمت استاد سمجھ کر کردیں اورخوش ہوں جائز ہے اور اس میں اس کے ثواب تعلیم پر کوئی اثر نہ ہوگا۔

احسن الفتاویٰ(8/215) میں ہے:

سوال:دیہات کی مساجد میں جو طلبہ رہتے ہیں ان میں نابالغ لڑکے بھی ہوتے ہیں جن کے ذمہ تمام کام ہوتے ہیں یہاں تک کہ ان نابالغ بچوں پر کبھی ظلم و زیادتی  بھی ہو جاتی ہے، ان حالات میں نابالغ سے بلا اجرت کام لینا کیسا ہے؟

جواب:والدین و اولیاء کی طرف سے دلالۃً کام لینے کی اجازت ہوتی ہے اس لئے کام لینا جائز ہے بلکہ ان کی  تربیت کے لئے کسی قدر کام لینا ضروری ہے۔ البتہ دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:

     (1)تعلیم میں زیادہ حرج نہ ہو۔ (2)استطاعت و طاقت سے زیادہ کام نہ لیا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved