- فتوی نمبر: 16-377
- تاریخ: 15 مئی 2024
- عنوانات: عقائد و نظریات > منتقل شدہ فی عقائد و نظریات
استفتاء
عن سعيد الأموي قال: شهدت أبا أمامة وهو في النزاع فقال لي: ياسعيد! إذا أنا مت فافعلوا بي كما أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا مات أحد من إخوانكم فسويتم عليه التراب فليقم رجل منكم عند رأسه ثم ليقل: يا فلان ابن فلانة! فإنه يسمع ولكنه لا يجيب، ثم ليقل: يا فلان ابن فلانة! فإنه يستوي جالسا، ثم ليقل: يا فلان ابن فلانة! فإنه يقول: أرشدنا رحمك الله! ثم ليقل: اذكر ما خرجت عليه من الدنيا شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله وأنك رضيت بالله ربا وبمحمد نبيا وبالإسلام دينا وبالقرآن إماما! فإنه إذا فعل ذلك أخذ منكر ونكير أحدهما بيد صاحبه ثم يقول له: اخرج بنا من عند هذا: ما نصنع به قد لقن حجته! فيكون الله حجيجه دونهما. فقال له رجل: يا رسول الله! فإن لم أعرف أمه؟ قال: انسبه إلى حواء
1۔ اس حدیث کی سندی حیثیت کیا ہے؟
2۔اس حدیث کے پیش نظر اہل سنت والجماعت کا کیا موقف ہے؟دلائل سے واضح فرمادیں
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔مذکورہ حدیث اکثر محدثین کے نزدیک ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں مجہول اورضعیف راوی ہیں۔
2۔تلقین فی نفسہ جائز ہےمگر جواز میں اختلاف ،عتقادی خرابیوں اور روافض کاشعار ہونے کیو جہ سے ممنوع ہے۔
في کشف الخفا1/363
قال في اللالي حديث تلقين الميت بعد الدفن قدجاء في حديث اخرجه الطبراني في معجمه واسناده ضعيف الي قوله…..وضعفه ابن صلاح ثم النوي وابن القيم والعراقي والحافظ ابن حجر في بعض تصانيفه وآخرون
في نيل الاوطار:4/97
وقال الهيثمي بعد ان ساقه في اسناده جماعة لم اعرفهم انتهي وفي اسناده ايضا
في الدرالمختار:2/94
ولايلقن بعد تلحيده)وان فعل لاينهي عنه وفي الجوهرة انه مشروع عنداهل السنة ويکفي قوله(يافلان ابن فلان…الي آدم وحواء)
في الشامية:2/94
قوله (ولايلقن بعدتلحيده)ذکرفي المعراج انه ظاهر الرواية…… قلت وما في ط عن الزيلعي لم ارفيه وانما الذي فيه قيل يلقن لظاهر مارويناه وقيل لاوقيل لايؤمر به ولاينهي عنه اھ وظاهر استدلاله للاول اختياره فافهم
عمدۃالفقہ1/ 534 میں ہے:
بعض کے نزدیک دفن کے وقت بھی اور دفن کے بعد تلقین مشروع ہے۔۔۔لیکن تلقین کا ضروری نہ ہونا زیادہ ظاہر ہے اور روایات تلقین ثبوتاودلالة ضعیف ہیں۔ نیز اس میں مفسدات لاحق ہو گئے ہیں اور اس میں روافض کے ساتھ تشبہ بھی ہے، اس لیے قابل ترک ہے۔
چناچہ احسن الفتاوی 253/4 میں ہے:
سوال :بعد دفن میت عندالقبر تلقین کرنا کیسا ہے؟
جواب :اس کا جواز مختلف فیہ ہے۔لہذا احتراز اولی واسلم ہے ۔بالخصوص اس دور فساد عقیدہ میں اجازت نہیں۔
امدادالفتاوی(جلد 1/577 ) میں ہے:
تحقیق تلقین قبور
سوال:تلقین القبور کے جواز وعدم جواز میں کونسی صورت مفتی بہ ہے؟
في الدرالمختار:ولايلقن بعد تلحيده في رد المحتارذکرفي المعراج انه ظاهر الرواية اھ(1/890)
اور ترجیح ظاہر روایت کو ہوتی ہے اور اس کے بعد جو تلقین کی مشروعیت کو نقل کیا ہے سو اول تو اس کے دلائل ضعیف ہیں بعض ثبوتا بعض دلالة پھر اس پر سب متفق ہیں کہ ضروری نہیں اورغیرضروری میں جب کوئی مفسدہ ہو،متروک ہو جاتا ہے اور اس میں تشبہ بالروافض ہے، اس لیے قابل ترک ہوا۔واللہ اعلم
امدادالاحکام1/211میں ہے:
حاصل یہ ہے کہ ہمارے اکابرین کے نزدیک تلقین بعد الموت مشروع نہیں ہے ان کا ظاہر روایت پر عمل ہے اور وہی
قوی ہے اوراگر یہ کہا جاوے کہ تطبیق کے لئے دونوں وقتوں میں تلقین کو جائز کہا جائے تو بہتر ہے تاکہ مزید نفع ہو تو اس کے متعلق عرض ہے کہ مجاز و حقیقت کا جمع کرنا جائز نہیں کما تقرر فی الاصول اور عموم مجاز کی یہاں کوئی صورت نہیں ہے ،چنانچہ خود علامہ ابن الہمامؒ تحریر فرماتے ہیں ولیس یظہر معنی یعم الحقیقی والمجازی الخ
اب ایک امر قابل غورہے اور وہ یہ کہ اگر ظاہر الروایہ کا محمل یہ قرار دیا جاوے کی تلقین بعد الموت مسنون ہیں اور طبرانی نے جو حدیث روایت کی ہے اس کو اباحت پر محمول کیا جاوے اور عجب نہیں کہ زیلعی سے شامی نے جو تین قول نقل کئے ہیں ان میں سے قول ثالث یعنی لایؤمر به ولاینهي عنه کا یہی منشا ہو سو بظاہر اس سے کوئی مانع نہیں لیکن اس زمانے میں تلقین بعد الدفن روافض کا شعار ہے اس واسطے اس کی اجازت نہ دی جاوے گی اور اس کی نظیر فقہ میں موجود ہے کہ باوجود وارد فی الشرع ہونے کے منع کی علت شعار فرق ضالہ قرار دی ہے ۔چناچہ درمختار،کتاب الحظروالاباحۃ میں ہے:
ويجعله(اي الخاتم)لبطن کفه في يده اليسري وقيل اليمني الاانه شعار الروافض فيجب التحرز عنه قهستاني وغيره فقط
© Copyright 2024, All Rights Reserved