• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

تراویح کے سنت ہونے کی تحقیق

استفتاء

احادیث سے ثابت کریں کہ تراویح سنت مؤکدہ ہے؟اور اس کا پڑھنا کیوں ضروری ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن باجماعت تراویح پڑھائی ہے اور بعد میں اس اندیشے سے موقوف فرمادی کہ کہیں فرض نہ ہو جائے، اس سے یہ معلوم ہوا( بطور دلالت النص )کہ اگر مذکورہ خطرہ نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو تسلسل کے ساتھ پڑھاتے رہتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرما گئے تو فرض ہونے کا اندیشہ باقی نہ رہا۔ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کی راتوں میں عبادت کرنے کی ترغیب بھی دی ہے اور پھر بعد میں صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین بالخصوص خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے مسجد نبوی میں ایک امام کے پیچھے باجماعت تراویح کا سلسلہ شروع فرمایاجس کی تمام صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے تائید فرمائی اور کسی صحابی نے کوئی نکیر نہیں فرمائی، ان سب باتوں کو سامنے رکھ کر فقہاء کرام رحمۃ اللہ تعالی علیہم نے تراویح کو سنت مؤکدہ میں شامل کیا۔

في البخاري(1/269)ومسلم(1/259)

عن ابن شهاب أخبرني عروة أن عائشة رضي الله عنها أخبرته أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج ليلة من جوف الليل فصلى في المسجد وصلى رجال بصلاته فأصبح الناس فتحدثوا فاجتمع أكثر منهم فصلى فصلوا معه فأصبح الناس فتحدثوا فكثر أهل المسجد من الليلة الثالثة فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى فصلوا بصلاته فلما كانت الليلة الرابعة عجز المسجد عن أهله حتى خرج لصلاة الصبح فلما قضى الفجر أقبل على الناس فتشهد ثم قال أما بعد فإنه لم يخف علي مكانكم ولكني خشيت أن تفترض عليكم فتعجزوا عنها فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم والأمر على ذلك

ترجمہ حضرت عروه بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انہیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے خبر دی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ درمیان رات میں گھر سے تشریف لے گئے،آپ نے مسجد میں نماز پڑھی اور آپ کے پیچھے لوگوں نے بھی وہی نماز پڑھی،جب صبح ہوئی تو لوگوں نے پچھلی رات کے نماز کا آپس میں تذکرہ کیاچنانچہ دوسری رات پہلے سے تعداد زیادہ ہو گئی بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور آپ کے ساتھ وہی نماز لوگوں نے بھی پڑھی صبح ہوئی تو پھر چرچا ہوا اور تیسرے رات لوگوں کی تعداد اور بھی زیادہ بڑھ گئی پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی وہی نماز پڑھی جب چوتھی رات آئی تو مسجد نمازیوں کی کثرت کی وجہ سے تنگ ہوگئی اس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کے نماز کے لئے ہی تشریف لائے،جب نماز ادا کرلی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا تمہارا یہاں آنا مجھ پر مخفی نہیں تھا لیکن میں ڈرا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ ہو جائے اور تم اس کے ادا کرنے سے عاجز ہو جاؤ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے اور معاملہ اسی طرح رہا۔

في المسلم:1259

عن أبي هريرة قال كان رسول الله {صلى الله عليه وسلم} يرغب في قيام رمضان من غير أن يأمرهم فيه بعزيمة فيقول من قام رمضان إيماناً واحتساباً غفر له ما تقدم من ذنبه

ترجمہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیام رمضان کی بہت زیادہ ترغیب دیتے تھےلیکن اس سلسلے میں کوئی تاکیدی حکم نہیں دیتے تھے،آپ ﷺفرماتے تھے جس نے رمضان کی راتوں میں ایمان (کی راتوں ميں)ميں ايمان کی حالت میں اورثواب کی نیت سے قیام کیاتو اس کے اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔

فی النسائی:1/239

عن عبدالرحمن بن عوف قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله تبارك وتعالى فرض صيام رمضان عليكم وسننت لكم قيامه فمن صامه وقامه إيمانا واحتسابا خرج من ذنوبه كيوم ولدته أمه

ترجمہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالی نے تم پر رمضان کے روزے فرض کئے ہیں اور میں نے تمہارے لئے اس میں قیام کو سنت قرار دیا ہے،سو جس شخص نے رمضان میں روزے رکھے اور قیام کیا ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے تو وہ اپنے گناہوں سے ایسے نکل گیا کہ جس دن اس کی ماں نےاس کو جنا تھا۔

فی الاختیار لتعلیل المختار:1/68-69

روی اسد بن عمرو عن ابي يوسف قال سالت ابا حنيفة رحمه الله عليه عن التراويح ومافعله عمر قال التراويح سنة مؤکدة ولم يتخرصه عمر من تلقاءنفسه ولم يکن فيه مبتدعا ولم يامر به الاعن اصل لديه وعهدمن رسول الله ﷺولقد سن عمرهذا وجمع الناس علي ابي ابن کعب فصلاها جماعة والصحابة متوافرون منهم عثمان وعلي وابن مسعود والعباس وابنه وطلحة وزبير ومعاذ وابي وغيرهم من

المهاجرين والانصار رضي الله عنهم ومارد عليهم واحد منهم بل ساعدوه ووافقوه وامروا بذلک

ترجمہ: اسد بن عمروامام ابو یوسف سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ سے تراویح اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے فعل کے بارے میں سوال کیاتو انہوں نے فرمایا کہ تراویح سنت مؤکدہ ہے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کو اپنی طرف سے اخترع (گھڑا)نہیں کیانہ وہ کوئی بدعت ایجاد کرنے والے تھے انہوں نے جو حکم دیا وہ کسی اصل کی بنیاد پر تھا جو ان کے پاس موجود تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عہد پر مبنی تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ سنت جاری کی اور لوگوں کوابی بن کعب پر جمع کیا ،انہوں نے تراویح کی جماعت کرائی اس وقت صحابہ کرام کی کثیر تعداد میں موجود تھے ،حضرت عثمان، علی، ابن مسعود،عباس،ابن عباس ،طلحہ، زبیر ،معاذ،ابی وغیرہ دیگر مہاجرین وانصار رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین سب موجود تھے مگر کسی ایک نے بھی اس کو رد نہیں کیا بلکہ سب نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے موافقت کی اور اس کا حکم دیا

( التراويح سنة ) مؤكدة لمواظبة الخلفاء الراشدين ( للرجال والنساء) إجماعا

قوله ( لمواظبة الخلفاء الراشدين ) أي أكثرهم لأن المواظبة عليها وقعت في أثناء خلافة عمر رضي الله عنه ووافقه على ذلك عامة الصحابة ومن بعدهم إلى يومنا هذا بلا نكير وكيف لا وقد ثبت عنه صلى الله عليه وسلم عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالنواجذ كما رواه أبو داود
 بحر  قوله ( إجماعا ) راجع إلى قول المتن سنة للرجال والنساء وأشار إلى أنه لا اعتداد بقول الروافض إنها سنة الرجال فقط على ما في الدرر والكافي أو أنها ليست بسنة أصلا كما هو المشهور عنهم على ما في حاشية نوح لأنهم أهل بدعة يتبعون أهواءهم لا يعولون على كتاب ولا سنة وينكرون الأحاديث الصحيحة

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved