• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تصوف کی حقیقت اور پیر کے لیے شرعی حدود وغیرہ

استفتاء

عارف لاہوری نامی ایک صاحب لاہور کے رہائشی ہیں یہ صاحب اپنے آپ کو سلسلہ نقشبندیہ میں ایک معروف بزرگ کے خلیفہ کہتے ہیں اور تصوف کا سلسلہ چلارہے ہیں ۔ان کا طریقہ کار کچھ اس قسم کا ہے۔

مہینے میں ایک مجلس مردوں اور عورتوں کی ہوتی ہے جس میں مردوں اور عورتوں کے بیٹھنے کی جگہ الگ ہوتی ہے درمیان میں چک کے ذریعے پردہ ہوتا ہے ۔جبکہ ہر جمعرات کو صرف عورتوں کی مجلس ہوتی ہے جس میں مرد شریک نہیں ہوتے۔عورتوں کی مجلس میں پہلے ان کی اہلیہ بیان اور کچھ ذکر وغیرہ کراتی ہیں پھر خود ان کا بیان ہوتا ہے اور اسی دوران ذکر ہوتا ہے اور قوالی کے ٹیپ بھی لگائے جاتے ہیں ۔قوالیاں اپنے نام کی بنوا رکھی ہیں قوالی کے دوران اور ذکر کے دوران عورتوں پر حال اور وجد طاری ہوتا ہے اور وہ حال کھیلنا شروع ہو جاتی ہیں اس دوران پیر صاحب بیٹھے ہوتے ہیں عورتیں بے حال ہو کر رقص کرتی ہیں کبھی فرط عقیدت میں وہ پیر صاحب سے لپٹ بھی جاتی ہیں اور کبھی پائوں میں سجدے کی طرح گر بھی جاتی ہیں ۔(قوالیوں کے بول سوال کے ساتھ فراہم کیے گئے ہیں) ایک قوالی کا بول ہے :

’’ہم اپنے پیر کا جوڑا بناکے لائیں

ہم اپنا حال دل معارف کو سنانے آئے ہیں‘‘۔

اس قوالی کے دوران پیر صاحب کی مریدینیاں سر پر ایک تھا ل پکڑ کر اس میں جوڑا رکھ کر رقص کر کے اپنی آہ وفغاں اور محبت کا اظہار کرتی ہیں ۔یہ قوالیاں ساز وسرود کے ساتھ ہیں (ان کے آئو یو کلپ بھی مہیا کیے گئے ہیں ) ایک قوالی کے بول یہ ہیں:

کرتا جا عارف کی پوچا پوچے تجھے خدائی رے

دوزخ میں تو کیا تیرا سایہ نہ جائے گا

نشست کے بعد پیر صاحب اپنے کمرے میں چلے جاتے ہیں جہاں مستورات بالخصوص پرانی تعلق والی باری باری جاتی ہیں اور اپنے حال احوال سناتی ہیں ۔کبھی پیر صاحب ناراض ہوں تو انہیں منانے کے لیے منت سماجت بھی کرتی ہیں مثلا پائوں کو ہاتھ لگانا وغیرہ۔بعض دفعہ کمرے کی لائٹ بھی آن نہیں ہوتی ۔پرانی مستورات ایک سے زیادہ بھی چلی جاتی ہیں ۔اپنے مریدین کے حلقے اور ذہنوں میں پیر صاحب کا تقدس اور احترام بہت زیادہ ہے اس لیے اس طرح کی باتوںکو معمول کی باتیں سمجھا جاتا ہے۔ذکر کراتے وقت عورتوں کے لطائف پر بھی توجہ دی جاتی ہے جس دوران پردے کا خیا ل نہیں ہوتا۔مستورات جن میںجوان لڑکیا ں بھی داخل ہیں پیر صاحب کے پائوں بلاتکلف دباتی ہیں اور خدمت کرتی ہیں ۔عورتوں سے اختلاط میں پردے کا خیا ل بالکل بھی نہیں رکھا جاتا ۔

پیر صاحب کے ہاں فیض کے منتقل (Transfer)کرنے کا طریقہ ہے کہ زبان چوسائی جاتی ہے ۔ایک دفعہ بندہ خود پیر صاحب کی مجلس میںچنداور لوگوں کے ہمراہ بیٹھا تھا کہ پیر صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ میں سو رہا تھا کہ مجھے اپنے پائوں کے انگوٹھے میں نمی محسوس ہوئی میں نے دیکھا تو بشری (ایک مریدنی لڑکی)فرط عقیدت ومحبت میں میرا انگوٹھا چوس رہی ہے میں نے خوش ہو کر اسے اپنی زبان چوسنے کے لیے دی اسی لیے اب تم دیکھتے ہو کہ وہ تھوڑی سی مجذوب ہو گئی ہے کیوں کہ فیض زیادہ ٹرانسفر ہو گیا ہے۔

بعض لڑکیا ں پیر صاحب کے گھر پر بلاتکلف رہتی ہیں۔ ایسی ہی ایک  لڑکی پیر صاحب کے بیٹے کے ساتھ غسل خانے میں پکڑی گئی اس کے والد نے غصہ کیا تو پیر صاحب نے یہ کہا نی گھڑی کہ یہ ایک ہندوجن کی سازش تھی میرے خلاف ۔جن میرے بیٹے پر آیا اور اس سے یہ غلط حرکت کرانے کی کوشش کی ورنہ میرا بیٹا ایسا نہیں ہے۔پیر صاحب کا ایک اور طریقہ کار یہ ہے وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ میرے پاس بے شمار جنات مرید ہیں اور آتے بھی رہتے ہیں جو لڑکیاں ان کی مریدنی ہوتی ہیں ان میں سے کسی پر کوئی جن آجاتا ہے جو مرد ہوتا ہے پیرصاحب اس کے ساتھ مکالمہ کرتے ہیں اور اس کے ساتھ مردوں کی طرح بلاتکلف معاملات سرانجام دیتے ہیں اپنے پاس بٹھا نا ،معانقہ کرنا ،وغیرہ۔دیکھنے والے یہی سمجھتے ہیں کہ یہ مرد جن ہیںجن کے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے ۔پیر صاحب نے ایک کتاب بھی لکھی ہے ’’تصوف ومعاشرتی بہود کے اسلامی اصول ‘‘اس میں تصوف کے بارے میں وہی باتیں لکھی ہیں جو دیگر معتبر اور مستند حضرات کی تحریروں میں موجود ہیں ۔تاہم یہ تصویر کا ایک رخ ہے ۔اس کے علاوہ ایک اور کتاب ہے تسہیل السلوک حصہ دوئم اس کے شروع میں پیر صاحب کی ایک مریدنی عذرا علمدار کی ارادت کی آپ بیتی بھی نشر ہوئی ہے ۔جس میں اس جوان خاتون نے بڑی تفصیل سے پیر صاحب کے پاس اپنے خاوند کے ہمراہ اپنی پہلی حاضری کا نقشہ کھینچا ہے اور پیر صاحب کو دیکھ کر اپنے دل کی بے قراری وبے تابی کا انداز مختلف پیرایوں میںلکھا ہے ۔چنانچہ صفحہ 15پر لکھا ہے :

’’ان کا رخ انور دیکھتے ہی میرا کیا حال ہوا کچھ نہ پوچھیے‘‘ع

     ’’ ان کے آتے ہی میری آنکھوں سے آنسو بہہ گئے

       پتلیوں نے بے وضو صورت نہ دیکھی یا ر کی‘‘

یہ پہلا وضو تھا نظر کا جوان کی نظر سے ہوا

     ’’مصحف رخ تیرا عذرا پر کھلا

     اس کی نظروں کی طہارت ہوگئی‘‘

صفحہ 17پر لکھا ہے:

ان کی صورت ایسی کہ دیکھتے ہی دل میں جگر میں آنکھ میں بس گئی ۔

صفحہ 25پر ہے :

’’حضرت کا بیان تعلیم ہم دونوں پوری توجہ سے سن رہے تھے ۔حضرت کے بیان سے میری طلب اور بھی بڑھ گئی۔ حسن رخ یا رپہ مٹنے کے لیے دل بیتاب نے ہنگامہ برپا کردیا ‘‘۔

     ’’نگاہ شوق دل کی ترجماں ہو گئی

     بے زبانی ہی ہماری زباں ہو گئی‘‘

’’حضرت لا لہ جیؒ سے یہی سیکھا تھا کہ بزرگان دین دل کی بات سمجھ لیتے ہیں ۔میں نگاہ شوق کو دل کی ترجمان بنائے بڑی توجہ اور ادب سے حضرت کا بیان سن رہے تھی کہ با ادب با مراد‘‘ ہوگئی ۔حضرت صاحب اس طلب وادب سے بہت خوش ہوئے اور موج میں آکر فرمایا :علمدار یہ لائٹ بند کردو ۔ہم تم دونوں کو ذکر کر واتے اور توجہ بھی دیتے ہیں ۔پس پھر کیا تھا ؟ادھر سے خاموش التجا‘‘۔

آگے چل کر صفحہ 28پر اپنا ایک مکاشفہ لکھا ہے کہ بیداری میں آنکھیں بند کر کے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئیں اور حضورﷺاپنی بیٹی قرار دیا ۔آگے صفحہ 44پر ایک محفل کا حال لکھتے ہوئے موصوفہ رقم طراز ہیں :

’’ادھر ہم بے قرار ادھر شفقت پدری کوجوش آیا حضرت ہمارے حال پر مہر بان ہوئے ،موج میں آئے قوالی لگا دی ساز ینہ کی آواز نے رگ رگ میں ذکر کو تیز کردیا طبلے کی تھا پ سے دل حزیں اللہ اللہ کی ضربیں لگنے لگیں،اندر ہی اندر ساز چھڑا، ساز میں سوز ملا، درد ملا، ہوک اٹھی شاید یہ ہو ک عالم ہو والوں نے بھی سنی ہو ،ہم ذات کی طرف اور ذات ہماری طرف متوجہ ہوئی ،نور آیا،سرور آیا اندر بھی نور ہی نور ہوگیا نور والے کے لیے بے تاب ہو گیا ایک عجب قسم کا مسحور کن کان بندھ ،جوش اٹھا وجد ہوا حال نے عروج کیا۔۔۔۔۔۔۔

پیر صاحب کے ہاں عورتوں سے پردے کا ہتمام نہیں ہے ،زبانی گفتگو میں اور نصیحت میں کہتے رہیں گے مگر عملا کچھ نہیں بلکہ اختلاط ہے ۔گویا ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہیں او ر دکھانے کے اور ۔

لوگوں کو اپنے حلقے میں شامل کرنے کے لیے زبانی دعوت کے علاوہ پیر صاحب نے اپنے فضائل کرامات اور احوال پر مشتمل ایک کتاب بھی ترتیب دے رکھی ہے جس کا نام ’’انوار ولایت عارف ‘‘ہے یہ کتاب عام مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔دعوی یہی ہے کہ یہ کتاب ان کی اہلیہ زاہدہ نے ترتیب دی ہے لیکن دراصل یہ کام انہوں نے خود کیا ہے ۔اس کتاب میں ہر دوسرے مرید اور مریدنی کو بیداری کی حالت میں حضور ﷺکی زیارت ہو جاتی ہے اور پیر صاحب کو اس کا کریڈٹ جاتا ہے۔کوئی مکاشفے میں آسمانوں کی سیر کرتا ہے اور کسی کو بیت اللہ میں نماز پڑھائی جاتی ہے ۔پیر صاحب کے مریدین کا دعوی ہے کہ پیر صاحب واحد آدمی ہیں جو بیداری میں زیارت نبوی ﷺ سے مشرف کروا دیتے ہیں۔ پیر صاحب کی اپنی بیٹی کو ئی نہیں البتہ مرید نیوں کی صورت میں بہت ساری جوان لڑکیاں ان کی روحانی بیٹیاں بنی ہوئی ہیں۔اپنے تین بیٹے تھے جن میں ایک نشے کی لت میں گرفتار ہو کر مر چکا ہے اور دوسرا ان سے منحرف اور بیزار ہو چکا ہے ۔تیسرا بیرون ملک ہوتا ہے ۔اپنے بیٹوں کے نام انہوں نے دوجنوں کودیدئیے ہیں جوعورتوں پر حاضر ہوتے ہیں۔

یہ تھا پیر صاحب کے احوال اور کوائف کا اجمالی سانقشہ ۔اس پس منظر میں مفتیان کرام سے درج ذیل سوالات کے شرعی جوابات مطلوب ہیں :

1۔تصوف کیا ہے ؟

2۔کیا جو کچھ پیر صاحب کررہے ہیں یہ تصوف ہے ؟

3۔کیا قوالی اور سماع کی اسلام میں اجازت ہے جبکہ مجلس میں بے پردہ عورتیں بھی موجود ہوں ؟

4۔کیا عورت کے لیے اپنے پیر کو بلاضرورت دیکھنا جائز ہے ؟

5۔کیا تصوف میں کوئی ایسا مقام بھی ہے کہ جہاں پردہ وغیرہ کا لحاظ ختم ہوجائے۔

6۔ایسے شخص کاکیا حکم ہے ؟کیا ایسا شخص پیر بنانے کے قابل ہے ؟

7۔کیا ایسے شخص سے مرید ہونا اور اس کے حلقہ میں شامل ہونا جائز اور درست ہے ؟

8۔جو لوگ بیعت ہو چکے ہیں ان کو بیعت توڑنا جائز ہے؟

9۔کیا بیداری میں زیارت نبوی ہوسکتی ہے کیااس میں کوئی فضیلت ہے اور شرعا یہ کس درجہ میں ہے؟

10۔جو مستورات ان سے وابستہ ہیں وہ پینٹ شرٹ اور بے حجاب ہیں اور انہی کے دعوے ہیں ہمیں فلاںموقع پرزیارت ہوئی ایسے ہوا ویسے ہوا، کیا جس آدمی کا کردار شریعت کے مطابق نہ ہو اس کی بات کا اس حوالے سے اعتبارکیا جاسکتا ہے؟

11۔کیا خواب میں اگر اس بات کا کوئی مرید دعویدار ہو کہ مجھے زیارت ہوئی ہے اور مجھے پیر صاحب کی حقانیت اور اچھا ہونا بتایا گیا ہے۔تو اس کا مطلب کیا ہوگا؟ جب کہ پیر صاحب کی صورت حال وہ ہے جو ذکر ہوئی ۔

12۔پیر صاحب کے دعوئوں میں ایک دعوی یہ بھی ہے کہ شیخ عبدا لقادر جیلانی ؒکے زمانے کا ایک بزرگ میرے اوپر مہربان ہے جس کا نا م بابا جی خیر ابن خیر ہے ۔کیا ایسا ہو سکتا ہے اور کیا اسے معتبر سمجھا جائے گا؟

ازراہ کرم!مندرجہ بالا سوالات کے جواب عنایت فرماکر ممنون فرمائیں ۔بہت نوازش ہو گی ۔

نوٹ :سائل پیر صاحب کو قدیم سے جانتا ہے ان کے حلقے میں آنا جانا رکھتا رہا ہے البتہ پھر ان کی حرکات سے بدظن ہو کر منحرف ہو چکا ہے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔تصوف اپنے ظاہر وباطن کو شریعت کا پابند بنانے کا نام ہے یعنی آدمی کے عقائد درست ہوجائیں ،اعمال شریعت کے مطابق ہو جائیں ،فرائض وواجبات اور سنن مؤکد ہ کی پابندی ہو اور حرام ومکروہ تحریمی سے بچنے لگ جائے ۔دل سے برے جیسے اخلاق تکبر ،حسد،کینہ ، ریاء، جھوٹی شہرت کا جذبہ ،غصہ ،خود پسندی ،کذب، حب جاہ، حب مال اورشہوت پرستی، وغیرہ نکل جائیں اور اچھے اخلاق مثلاًمحبت الٰہی،خشیت، رجاء، تواضع، ہمدری، خیرخواہی، اخلاص ،زہد ،عفت ،صبر، شکر، صدق ،توکل اوررضاء برقضاء وغیرہ پیدا ہوجائیں۔

2۔آپ نے سوال میں جو باتیں لکھی ہیں وہ سنت کے صاف صاف مخالف ہیں اس لیے یہ تصوف ہر گز نہیں ہے۔

3۔قوالی یا سماع نہ تو تصوف کے مقاصد میں سے ہے نہ لوازم میں سے ۔جو اس کو داخل سمجھتا ہے وہ تصوف کی حقیقت سے بے خبر ہے ۔بعض اوقات بعض مشائخ کسی مرید کی باطنی حالت یا کسی بیماری کے ازالے کے لیے اسے بطور علاج کے تجویز کرتے ہیں مگر اس میں چند کڑی شرائط ہیں ۔جن میں سے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ اس مجلس میں کوئی عورت اور بے ریش بچہ نہ ہو اور سماع میں آلات موسیقی کا استعمال نہ ہو جبکہ زیر نظر صورت میں ان دونوں شرائط کو پامال کیا ہوا ہے ۔

4۔جس طرح مرد کے لیے حکم ہے کہ وہ عورت کو نہ دیکھے اسی طرح عورت کے لیے بھی حکم ہے ۔قرآن پاک میں ارشاد ہے

"قل للمؤمنین یغضوا من ابصارهم ویحفظوا فروجهم” اور "وقل للمؤمنات یغضضن من ابصارهم”.

ترجمہ :آپ مومنوں سے فرمادیں کہ اپنی نظروں کو پست رکھیں اور شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔ایسے ہی عورتوں کو فر مایا کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ۔عورتوں کا کسی مرد کو چاہے وہ پیر ہوں یا استاد وغیرہ ،ایسے ہی دیکھنا جیسے سوال میں ذکر ہے قطعا غلط ہے۔ یہ اگرچہ بظاہر عقیدت اور تقدس کے ساتھ ہو مگر اس میں نفس کا پوشیدہ حصہ ہوتا ہے ،شیطان اور نفس کی چالیں بہت باریک ہیں۔شریعت کے ٹھیٹھ احکامات کو سامنے رکھ کر ہی ان سے بچاؤممکن ہے ۔

5۔بالکل نہیں ،شریعت کے احکامات ساقط نہیں ہوتے جو ایسا دعوی کرے وہ بے دین اور ملحد ہے ۔حضور ﷺکا معمول یہ تھا کہ عورتوں کو بالکل ہاتھ نہ لگاتے تھے ۔سیدہ عائشہ ؓفرماتی ہیں :جب ہجرت کی بیعت کے لیے عورتیں حضور ﷺکی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ زبانی بیعت فرمالیتے اور فرماتے ’’انطلقن فقد بایعتکن ‘‘چلی جائو تمہاری بیعت ہوگئی ۔پھر سیدہ عائشہؓفرماتی ہیں :ولاواللہ مامست یدرسول اللہ ﷺیدامرأۃ قط۔رواہ مسلم(1866)

ترجمہ :خدا کی قسم حضور ﷺکے ہاتھ نے کبھی کسی (نامحرم)عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا۔

اور حضرت معقل بن یسار ؓسے مروی ہے :حضور ﷺنے فرمایا :

’’لئن یطعن فی رأس احدکم بمخیط من حدید خیر لہ ان ان یمس امرأۃ لاتحل لہ۔(طبرانی کبیر486)

ترجمہ: تمہارے سر میں لوہے کی میخ ٹھونک دی جائے یہ اس سے بہتر ہے تم کسی ایسی عورت کو چھوئو جسے چھونا تمہارے لیے حلال نہیں ہے۔

6۔ایسا شخص پیر بنانے کے قابل نہیں ہے۔

7۔نہیں۔

8۔ توڑ دینی چاہیے۔

9۔حدیث پاک میں زیارت نبوی کی جوگارنٹی دی گئی ہے وہ حالت خواب سے متعلق ہے اور اس میں بھی صرف زیارت کی گارنٹی ہے خواب میںجو کچھ فرمایا جائے اس کے حق یا ہوبہوسو فیصد درست ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہے ۔نیز بیداری میں زیارت نبوی کی کوئی گارنٹی نہیں ہے ۔بیداری میں دیکھنے والے کی قوت خیالیہ کا تصرف ہو سکتا ہے اور شیطان کی کارستانی بھی ہو سکتی ہے کہ وہ اس راستے سے انسان کو گمراہ کرسکتا ہے ۔

10۔جس آدمی کی زندگی سنت کے مطابق نہیں اس کی بات کا اعتبارکیسے کیا جاسکتا ہے۔

11۔کسی کے حق پر ہونے اور صحیح ہونے کا معیار سنت کے مطابق زندگی اور شریعت کے احکامات پرعمل پیرا ہوناہے ۔جب کسی آدمی کا ظاہر میں شریعت سے انحراف معلوم ہوتو اس کے حق میں چاہے لاکھ خواب آئیں اس کے حق میں مفید نہیں ۔وہ خواب دیکھنے والے کے لیے فتنہ ہیں ۔کیونکہ یقینی بات ہے کہ شریعت کے ظاہری احکام قطعی اور اٹل ہیں اس کے مخالف اگر کسی نے کچھ دیکھا ہے تو اسے دیکھنے میں سمجھنے میںیا یاد رکھنے میں غلطی لگی ہے۔

12۔تصوف چونکہ دین کا ایک اہم حصہ ہے اور دین زندہ اور ظاہر میںچلتے پھرتے ایسے بزرگوں سے حاصل کیا جاتا ہے جو کامل اور معروف ہوتے ہیں اس قسم کے بابا جی یا جنات یا ارواح کے بارے میں کیا اطمینان کہ وہ کون ہیں کیا خبر کہ وہ مسلمان بھی ہیں یا کافر اور منافق جنات ہیں جو لوگوں کو چکر دیتے ہوں۔اگر ایسے لوگوں پر اعتماد کا دروازہ کھولایا جائے تو شیطان بہت آسانی سے ایسی صورتوں اور طریقوں سے انسان کو گمراہی کی وادیوں میں دھکیل دے گا۔اس لیے ایسی باتیں قابل اعتبار نہیں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved