• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تعزيت کامسنون طريقہ

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ایک مسئلہ میں شرعی رہنمائی کی درخواست ہے ۔ہمارے گاؤں میں اور یہاں لاہور میں یہ طریقہ چلتا ہے کہ جب کوئی فوتگی ہوتی ہے تو جنازہ سے پہلے میت ابھی تک گھر میں ہوتی ہے کہ لوگ تعزیت کے لیے گھر کے بڑے کے پاس آکر بیٹھتے ہیں اور اس موقع پر وہاں ایک قاری صاحب بیٹھے ہوتے ہیں، وہ قرآن پاک کے کچھ حصے کی تلاوت کرتے ہیں ،اس کے بعد دعا کرواتے ہیں ،اسی طرح کبھی ایک ایک کبھی ایک سے زیادہ بھی لوگ آتے ہیں اور تلاوت دعا کے بعد چلے جاتے ہیں۔

1۔کیا یہ طریقہ ٹھیک ہے؟ہم اس کو ایک رواج کے طور پر کرتے ہیں، دین کا لازمی حصہ نہیں سمجھتے، لیکن تلاوت کا ایصال ثواب بظاہر میت ہی کو کرتے ہیں۔ بعض اوقات قاری صاحب نہ ہوں تو آنے والا خود ہی تلاوت کرکے دعا کر لیتا ہے۔ ہمارے علاقے کے معتبر علماء بھی یہی طریقہ اپناتے ہیں، اس لیے ہمیں اس پر کوئی اشکال نہیں ہوا یہاں پر بعض لوگوں کے توجہ دلانے پر یہ بات پوچھ رہے ہیں اگر یہ طریقہ نہیں اپناتےتو تعزیت کے لئے اور بھی کئی طریقے ہیں کس کو اختیار کیا جائے ؟کیا ہم اس کو اپنے علاقے کا عرف سمجھ کراس پر عمل کرتے رہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

تعزیت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ اہل میت کو تسلی دی جائے اور ان کے لیے دُعائیہ کلمات کہے جائیں۔ دُعائیہ کلمات میں یہ کلمات کہنے بھی مسنون ہیں:

أعظم الله أجرك و أحسن عزائك و غفر لميتك.

اس كے علاوہ جو بھی تعزیت کا طریقہ مروج ہو اسے ترک کرنا چاہیے اور سنت طریقے پر عمل کرنا چاہیے۔

فتاویٰ شامی (3/137) میں ہے:

وبتعزية أهله وترغيبهم في الصبر. في الشامية: وله: (وبتعزية أهله) أي تصبيرهم والدعاء لهم به….. قال في شرح المنية: وتستحب التعزية للرجال والنساء اللاتي لا يفتن، لقوله عليه الصلاة والسلام: من عزى أخاه بمصيبة كساه الله من حلل الكرامة يوم القيامة …. والتعزية أن يقول: أعظم الله أجرك، وأحسن عزاءك، وغفر لميتك اه..

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved