• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’تیرا میرا گذارہ نہیں ہو سکتا۔‘‘ ’’تو مجھے چھوڑ دے یا میرا پیچھا چھوڑ دے۔‘‘ ’’اپنے ماں باپ کے گھر جا کے رہ۔‘‘ ’’جب تک یہ بچہ ہمارے درمیان ہے تمہارا میرا تعلق یا ساتھ اس وقت تک ہے‘‘

استفتاء

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ گذشتہ عرصہ 8 یا 9 سال کے دروان ہمارے میاں بیوی کے درمیان کافی مرتبہ جھگڑا رہا، اور آپس میں اس لڑائی کے دوران جو الفاظ بولے گئے اس میں میرے غالب گمان کے مطابق مفہوم یہ ہے جیسے میں نے اپنی بیوی کو کہا کہ  ’’میرا تیرا گذارہ نہیں ہو سکتا، تو مجھے چھوڑ دے یا میرا پیچھا چھوڑ دے، اپنے ماں باپ کے گھر جا کے رہ‘‘ یا اس طرح کے ملتے جلتے الفاظ جن کو اپنی یاداشت کے مطابق لکھ رہا ہوں کافی مرتبہ یا غالباً 30 یا 40 مرتبہ کے قریب بولے گئے ہوں گے۔ اس کے علاوہ جو الفاظ مجھے صحیح یاد پڑتے ہیں وہ یہ ہیں کہ  ’’جب تک یہ بچہ ہمارےدرمیان ہے تمہارا میرا تعلق یا ساتھ اس وقت تک ہے‘‘ یہ الفاظ میرے غالب کے مطابق یا شاید اس میں بھی شبہ کی گنجائش ہے، الفاظ کے بولنے کی تعداد میں زیادہ سے زیادہ دو مرتبہ بولے گئے ہوں گے۔ اور اس بچے کو فوت ہوئے قریباً پونے دو سال کے قریب عرصہ گذر گیا ہے۔ اس میں بات یہ ہے کہ جب میں نے یہ الفاظ اپنی بیوی کو کہے اور اس نے سنے بھی تو اس وقت میرے علم کے مطابق یہ تھا کہ جب تک آدمی اپنی بات میں طلاق کے لفظ کو استعمال کرتے ہوئے اپنی بیوی کو طلاق کی نیت سے یہی کہے کہ ’’میں تجھے طلاق دیتا ہوں‘‘ یا ’’تجھے طلاق ‘‘ یا اس طرح کے الفاظ تو تب طلاق واقع ہوتی ہے اور جب طلاق کے علاوہ جیسے میں نے اپنے الفاظ ذکر کیے ہیں ان سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ اس لیے جب میں نے اوپر والے الفاظ کہے تو میری نیت طلاق دینے کی نہ تھی اگر طلاق دینے کی نیت ہوتی تو واضح الفاظ میں جیسا کہ میرے علم کے مطابق ہے طلاق کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا۔ اب میں نے مسائل بہشتی زیور میں اس طلاق کے مسئلے کو پڑھا تو مجھے پتہ چلا کہ اس  طرح کے الفاظ سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ برائے مہربانی غور فرما کر شرعی فیصلہ ارشاد فرمائیں۔

نوٹ: یہ الفاظ کہتے وقت غصہ کی حالت تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ نے اپنے غالب گمان کے مطابق اب تک جو الفاظ استعمال کیے ہیں وہ یہ ہیں:

1۔ ’’تیرا میرا گذارہ نہیں ہو سکتا۔‘‘

2۔ ’’تو مجھے چھوڑ دے یا میرا پیچھا چھوڑ دے۔‘‘

3۔ ’’اپنے ماں باپ کے گھر جا کے رہ۔‘‘

4۔ ’’جب تک یہ بچہ ہمارے درمیان ہے تمہارا میرا تعلق یا ساتھ اس وقت تک ہے‘‘

ان الفاظ میں سے نمبر 1، نمبر 2 اور نمبر 4 کے الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ کیونکہ یہ الفاظ طلاق میں نہ صریح ہیں نہ کنایہ  البتہ نمبر 3 کے الفاظ طلاق کے لیے کنایہ ہیں اور کنایہ کی دوسری قسم میں شامل ہیں۔ ان الفاظ سے غصے کی حالت میں اور عام حالت میں طلاق کی نیت ہو تو طلاق ہوتی ہے ورنہ نہیں۔

مذکورہ صورت میں چونکہ آپ کی نیت نہیں تھی اس لیے ان الفاظ سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ البتہ نیت نہ ہونے پر آپ کو اپنی بیوی کے سامنے قسم دینی ہو گی۔ اگر آپ نے اپنی بیوی کے سامنے قسم نہ دی تو بیوی اپنے حق میں ایک طلاق بائنہ سمجھے گی۔

فتاویٰ شامی (4/517-521) میں ہے:

والكنايات ثلاث: ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب أو لا ولا فنحو اخرجي واذهبي وقومي … وفي الغضب توقف الأولان إن نوى وقع وإلا لا.

فقہ اسلامی (125) میں ہے:

’’دوسری قسم: وہ الفاظ جن میں طلاق کا معنیٰ بھی نکلتا ہے اور گالم گلوچ کا معنیٰ بھی نکلتا ہے۔۔۔۔ مثلاً تو اپنی ماں کے ہاں جا۔‘‘

فتاویٰ شامی (4/521) میں ہے:

والقول له بيمينه في عدم النية. قال الشامي تحت قوله (بيمينه) فاليمين لازمة سواء ادعت الطلاق أم لا حقاً لله تعالى……………………………. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved